’گرمیوں سے پہلے میاں صاحب کی روانگی کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘


حقیقت یہ ہے کہ تکرار کے اس لمحے میں کسی حل کا ہونابہت ضرورت ہے، سیاست میں آخری جواب یا حتمی فتح نامی کوئی چیز نہیں ہوتی
آپ میں سے کئی لوگوں کو زندگی میں ایک ایسے شخص سے ملنے کا اتفاق ضرور ہوا ہوگا جو ہر صورت اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جو دیگر کے نزدیک ہر طرح سے معقول ہوتی۔
یہ شخص آپ کو ہر کہیں، ہر قسم کی صورتحال میں عام سمجھ بوجھ کے بھی الٹ اپنی ضد پر اڑا نظر آئے گا اور سر ہلاتے ہلاتے پُرطیش روح جیسا رویہ اپنائے رکھے گا، جبکہ جس خیال پر وہ اڑا ہوتا ہے اس پر ارد گرد کے لوگوں کو قائل کرنے کے لیے اس کے پاس کوئی وضاحت بھی نہیں ہوتی۔ وہی ’میں نہ مانوں‘ کی رٹ لگانے والے لوگ۔
میاں نواز شریف مکمل طور پر تو ایسے لوگوں میں شمار نہیں ہوتے، حالانکہ لاہور میں کئی افراد آج اپنے محبوب رہنما کی معصومیت پر مسلسل یقین کی وجہ سے اس کیٹیگری میں شامل کرنے میں ذرا بھی نہیں ہچکچائیں گے۔
ان میں سے ایک کا کہنا کچھ یوں ہے کہ، ’ہم ضدی لوگوں کو پسند کرتے ہیں۔ علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیے جانے کی ہر طرف سے کی جانے والی درخواستوں اور گزارشات کو مسترد کرکے میاں صاحب یہ ثابت کر رہے ہیں کہ ان سے نمٹنا بالکل بھی آسان نہیں۔‘
یقیناً میاں صاحب کو معلوم ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں اور یہ کہ دیگر افراد جو انہیں کچھ عرصے سے ایک خاص سمت کی طرف دھکیل رہے ہیں ان کے ذمے کیا کچھ بڑے مقاصد ہیں۔
اب پیپلزپارٹی کے بالغ ہوچکے رہنما بلاول بھٹو زرداری نے ایک مشن کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ 12 برس قبل جو ان کی قابلِ احترام والدہ نے کامیاب کوشش کی تھی وہ اس کے ٹھیک الٹ کام کرنے میں کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ ان کی والدہ ہی تھیں جنہوں نے شریفوں کو پاکستان واپسی کے لیے نہ صرف قائل کیا بلکہ 2007ء میں ہونے والے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تیار بھی کیا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ انتخابات ان کی اپنی وفات کی وجہ سے 2008ء میں منعقد ہوئے تھے۔
موجودہ حالات میں جو نیا نیا ہے وہ ہے ان کے والد کا چہرہ۔ بلاول بھٹو زرداری اب ایک ایسی مہم کے انچارج کی طرح ہیں جو بالآخر میاں صاحب کو ایک بار پھر جیل سے دیارِ غیر تک لے جاسکتے ہیں۔
جس طرح سابق وزیرِاعظم کو لاحق دل میں تکلیف کی شکایت کا تذکرہ کثرت سے میڈیا پر دیکھنے کو مل رہا ہے اور جس طرح یہ اصرار سامنے آ رہا ہے کہ اس بیماری کا علاج ملک میں نہ تو ہوسکتا ہے اور نہ ہی کبھی کروایا جاسکتا ہے، اسے مدِنظر رکھتے ہوئے لابنگ کرنے والے اب مستقبل قریب میں ان کی روانگی کی تاریخ کا تعین کرنے میں جُٹ گئے ہیں۔ گرمیوں میں لاہور پر سورج کی تپش بڑھنے سے قبل روانگی کے بارے میں کیا خیال ہے؟
یہ اہم کام جس کے بدلے میں پیپلزپارٹی کے رہنماؤں کو ملنے والے ذاتی فائدوں کا منظرِ عام پر آنا باقی ہے، اس نے بلاول بھٹو زرداری کو پنجاب میں مرکزِ نگاہ بنا دیا ہے، حتیٰ کہ میاں صاحب بطور وزیرِاعظم پیپلزپارٹی کے چیئرمین کو اپنے والد کے ہمراہ دیکھنے تک کے لیے راضی دکھائی نہیں دیتے تھے۔ اب اگر سابق وزیرِاعظم نے یقیناً آصف زرداری کے بغیر، پارٹی چیئرمین سے بالآخر ملاقات کے لیے حامی بھری تو ایسے میں ہمیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وزرا کی کوئی ضرورت جو ہمیں یہ بتائیں کہ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) میاں صاحب کی جیل میں موجودگی کی بنیاد پر سیاست کر رہی ہیں۔