پاکستان

منی لانڈرنگ کیس اسلام آباد منتقل، آصف زرداری کی حفاظتی ضمانت منسوخ

کراچی کی بینکنگ عدالت نے سابق صدر آصف زرداری، فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زرضمانت خارج کردی۔
|

کراچی کی بینکنگ عدالت نے جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے منی لانڈرنگ کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی کی نیب کی درخواست منظور کرلی جبکہ ساتھ ہی آصف زرداری، فریال تالپور و دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لیتے ہوئے زر ضمانت خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

شہر قائد کی بینکنگ عدالت میں منی لانڈرنگ کیس کی سماعت ہوئی، جہاں کیس میں نامزد انور مجید کے بیٹے نمر مجید، ذوالقرنین،علی کمال مجید عدالت میں پیش ہوئے۔

تاہم کیس کے ملزمان پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری ، ان کی بہن فریال تالپور و دیگر ملزمان ابتدائی طور پر عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور ان کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک پیش ہوئے۔

مزید پڑھیں: منی لانڈرنگ کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں توسیع

دوران سماعت عدالت کی جانب سے 11 مارچ کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا اور قومی احتساب بیورو (نیب) کی مقدمہ منتقلی کی درخواست منظور کرلی۔

عدالت نے نیب کی درخواست پر کہا کہ منی لانڈرنگ کیس کو اسلام آباد منتقل کیا جائے۔

بینکنگ عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے تحریری فیصلے میں سابق صدر آصف علی زرداری اور فریال تالپور سمیت دیگر ملزمان کی ضمانتیں واپس لے لی گئی جبکہ تمام ملزمان کی زر ضمانت بھی خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

نیب کی درخواست پر عدالتی فیصلہ آتے ہی انور مجید کے صاحبزادے گرفتاری کے خوف سے عدالت سے روانہ ہوگئے۔

ادھرعدالتی فیصلے کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری بینکنگ کورٹ پہنچے اور حاضری لگائی جبکہ احاطہ عدالت میں وکلا سے مشاورت بھی کی، تاہم اس دوران فریال تالپور پیش نہیں ہوئیں اور ان کے وکیل کی جانب سے بتایا گیا کہ وہ بیمار ہیں اس لیے عدالت میں پیش نہیں ہوسکتیں۔

آصف زرداری نے کہا کہ کیس کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی سے کیا فرق پڑے گا اور اس کا مقصد کیا ہے، اس بارے میں ججز اور ماہر وکلا ہی اپنی رائے دے سکتے ہیں۔

علاوہ ازیں آصف زرداری اور فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے میڈیا سے گفتگو میں کہا کہ احتساب عدالت کو اختیار ہے کہ وہ ملزمان کے وارنٹ جاری کرے یا انہیں طلب (سمن) کرے۔

انہوں نے کہا کہ نیب کے پاس تفتیش کا اختیار موجود نہیں بلکہ گرفتاری کا اختیار ہے، اس صورتحال کے پیش نظر حکمت عملی طے کی جارہی ہے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ بینکنگ عدالت کی جانب سے مقدمہ منتقلی کی درخواست کے فیصلے کے خلاف ملزمان کے وکلا نے سندھ ہائیکورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ملزمان کی عبوری ضمانتیں وہیں سے حاصل کی جائیں گی۔

کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: نیب کی دوسری پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔