’لگتا ہے ڈی ایچ اے، حکومت کے اندر حکومت ہے‘
ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کے آڈٹ میں ناکامی پر وفاقی حکومت کی سرزنش کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ لگتا ہی ڈی ایچ اے، حکومت کے اندر ایک حکومت ہے۔
سپریم کورٹ میں جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ڈی ایچ اے کے آڈٹ سے متعلق کیس کی سماعت کی۔
سماعت میں عدالتی احکامات پر عملدآمد نہ ہونے پر ججز نے حکومت اور ہاؤسنگ اتھارٹی پر برہمی کا اظہار کیا۔
سماعت میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے ڈی ایچ اے کے آڈٹ کا حکم دیا تھا، آڈٹ نہ کروا کر ڈی ایچ اے توہین عدالت کر رہا ہے، ڈی ایچ اے کو آڈٹ میں مسئلہ کیا ہے؟
مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے شہدا کو ڈھال بنا کر کاروبار چلاتی ہے، چیف جسٹس
واضح رہے کہ ستمبر 2015 میں عدالت عظمیٰ نے ڈی ایچ اے کے اس دعوے کو غیر منصفانہ قرار دیا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ اس کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال نہیں جاسکتی اور آڈیٹر جنرل پاکستان کو ڈی ایچ اے کے اکاؤنٹس کا آڈٹ کرنے کا حکم دیا تھا، یہ حکم 156کنال زمین کی ملکیت کے حوالے سے کیس کی سماعت کے دوران دیا گیا تھا۔
ڈی ایچ کے آڈٹ میں ناکامی پر وفاقی حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ کیا عدالت حکومت کو قانون پڑھائے گی؟ حکومت لکھ کر دے کہ اسے قانون سمجھ نہیں آتا۔
دوسری جانب عدالت کے حکم کی پیروی نہ کرنے پر جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ کیا عدالت حکومت کی متبادل ہے؟
یہ بھی پڑھیں: 'کیا ڈی ایچ اے حکومت کو جوابدہ ہے؟'
انہوں نے کہ کہا کہ ہر کام اور حکم عدالت کو ہی کیوں دینا پڑتا ہے؟ کیا حکومت، سپریم کورٹ کے حوالے کردی گئی ہے؟ لگتا ہے ڈی ایچ اے حکومت کے اندر ایک حکومت ہے۔
سماعت میں ڈی ایچ اے کی جانب سے پیش ہونے والے وکیل نے تیاری کے لیے وقت مانگا، جس پر عدالت نے سماعت 2 ہفتے کے لیے ملتوی کردی گئی۔
24 جولائی کو ڈاڈھوچہ ڈیم سے ملحق جھیل کے لیے مختص زمین پر ڈی ایچ اے وادی کی تعمیر کے خلاف دائر کی گئی ایک شکایت کی سماعت کے دوران ڈی ایچ اے کی حیثیت زیرِ بحث آئی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ پاک فوج کا ریئل اسٹیٹ کا ایک ادارہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے)، کیا کسی نگرانی کے بغیر کام کررہا ہے یا یہ وفاقی حکومت کو جوابدہ ہے؟
مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے والوں کا بس چلے تو سمندر میں شہر بنا لیں، جسٹس گلزار
اکبر تارڑ نے عدالت کو مطلع کیا کہ فوج کے ایک ماتحت جنرل کی سربراہی میں ڈی ایچ اے ایک قانونی ادارہ ہے لیکن یہ دونوں قانونی افسران یہ واضح نہیں کرسکے کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی جانچ پڑتال کا کوئی اختیار رکھتی ہے۔
جس پر نیب کے ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ ڈی ایچ اے کے ایکٹ 2013 کے تحت یہ اتھارٹی شہیدوں کے سوگوار خاندانوں، جنگ میں زخمی اور معذور ہوجانے والوں اور مسلح افواج کے عہدے داروں کو رہائش کی سہولت فراہم کرتی ہے۔
اس کے جواب میں عدالتی بینچ نے سوال کیا تھا کہ کیا وفاقی حکومت ڈی ایچ اے کی مختلف رہائشی اسکیموں میں سوگوار خاندانوں، زخمیوں اور معذوروں کو الاٹ کی گئی زمین کے بارے میں تفصیلات فراہم کرسکتی ہے؟
یہ بھی پڑھیں: ’فوج کو ہاؤسنگ اسکیم بنانی ہے تو اپنے لوگوں کیلئے بنائے‘
عدالتی بینچ نے وفاقی حکومت کے وکیل سے کہا تھا کہ وہ عدالت کو آگاہ کریں کہ کیا ڈی ایچ اے کسی اتھارٹی کو جوابدہ ہے یا نہیں۔
بعدازاں 4 مئی 2018 کو بحریہ ٹاؤن کے خلاف دیے گئے سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی (ڈی ایچ اے) کو کوڑیوں کے بھاؤ زمین دی گئی، اس پر عدالت درخواست کرتی ہے کہ چیف جسٹس ڈی ایچ اے کراچی کو زمین دینے کے معاملے کا ازخود نوٹس لیں۔
یکم جنوری 2019 کو ایڈن ہاؤسنگ اسکیم کے کیس کی سماعت کرتے ہوئے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا تھا کہ کیا ہاؤسنگ سوسائٹیز بنانا فوج کا کام ہے؟ کس ملک کی فوج ہاؤسنگ اسکیمز چلا رہی ہیں؟
مزید پڑھیں: ڈی ایچ اے سٹی کے باعث کسان اپنی زرعی اراضی سے محروم
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ فوج کا کام ہے کہ وہ سرحدوں پر ملک کی حفاظت کرے نہ کہ کمرشل سرگرمیوں میں حصہ لے،کیا ڈی ایچ اے نے یہ ہمارے شہدا کے لیے کیا، ڈی ایچ اے شہدا کے لیے کچھ کرتا تو یہ الگ بات تھی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے تھے کہ جب جب آپ ہاؤسنگ اسکیموں میں گئے آپ کا نام خراب ہوا، آپ نے جو زمینیں خریدیں وہ متنازع تھیں اور ایسا کرکے آپ نے اپنی ساکھ بھی بیچ دی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ آپ لوگ (ڈی ایچ اے) بیواؤں اور شہیدوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرکے اپنا کاروبار چلاتے ہیں اور ان کے نام پر رائلٹی لیتے ہیں۔