سپریم کورٹ: نواز شریف کی درخواست ضمانت سماعت کیلئے مقرر
سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی طبی بنیادوں پر جیل سے ضمانت پر رہائی اور سزا کی معطلی کی درخواست فوری سماعت کے لیے مقرر کردی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے نواز شریف کی جانب سے دوسری مرتبہ درخواست پر اسلام ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل 19 مارچ کو سماعت کے لیے مقرر کرنے کا حکم دے دیا۔
سپریم کورٹ کا 3 رکنی بینچ نواز شریف کی درخواست پر سماعت کرے گا۔
خیال رہے کہ نواز شریف نے اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کی درخواست مسترد کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس کے بعد اس کو فوری سماعت کے لیے مقرر کرنے کی درخواست دی تھی جس کو بھی مسترد کردیا گیا تھا۔
سابق وزیراعظم نواز شریف اس وقت لاہور کی کوٹ لکھپت جیل میں ہیں جہاں ان کی صحت کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے جبکہ انہیں لاہور کے ہسپتالوں میں بھی منتقل کیا گیا تھا اور حکومت کی جانب سے معائنے کے لیے میڈیکل بورڈ بھی تشکیل دیے گئے تھے۔
وزیراعظم عمران خان نے بھی مسلم لیگ (ن) کے قائد کی صحت یابی کی دعا کرتے ہوئے حکومتِ پنجاب کو ہدایت کی تھی کہ نواز شریف کو ان کی مرضی کے ڈاکٹر سے علاج کی اجازت دی جائے۔
مسلم لیگ (ن) کے قائد نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے العزیزیہ کرپشن کیس میں سزا کے خلاف طبی بنیادوں پر ضمانت دینے کی درخواست کی تھی، جو 25 فروری کو مسترد کردی گئی تھی۔
مزید پڑھیں:سپریم کورٹ: نوازشریف کی درخواست ضمانت پر جلد سماعت کی اپیل مسترد
بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف نوازشریف کی جانب سے ان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی، جس میں عدالت عظمیٰ سے العزیزیہ ریفرنس میں احتساب عدالت کی دی گئی 7 برس قید کی سزا ختم کرتے ہوئے ضمانت کی استدعا کی گئی تھی۔
عدالت عظمیٰ میں یہ اپیل دائر کرنے کے ساتھ ہی ایک علیحدہ درخواست بھی جمع کروائی گئی تھی جس میں اس کی 6 مارچ کو جلد سماعت کی گزارش تھی۔
تاہم سپریم کورٹ کے رجسٹرار آفس نے جلد سماعت کی درخواست یہ کہتے ہوئے واپس کردی کہ اس معاملے کو خصوصی توجہ نہیں دی جاسکتی اور کارروائی معمول کے مطابق ہی کی جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں:العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس: نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے 25 فروری کو ان کی ضمانت کی درخواست مسترد کرتے ہوئے فیصلہ سنایا تھا کہ نواز شریف کی کسی میڈیکل رپورٹ سے یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ ان کی خراب صحت ان کی زندگی کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔
اس کے ساتھ اس بات کی بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ جب بھی انہیں صحت کی خرابی کی شکایت ہوئی تو انہیں وقتاً فوقتاً علاج کے لیے ہسپتال منتقل کیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ میڈیکل بورڈ میں شامل ڈاکٹروں کی مرتب کردہ رپورٹس سے یہ بات واضح ہوتی ہیں کہ درخواست گزار کو وہ تمام بہترین ممکنہ طبی سہولیات فراہم کی گئیں جو پاکستان میں کسی بھی فرد کو حاصل ہیں۔
یاد رہے کہ 24 دسمبر 2018 کو اسلام آباد کی احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے دائر العزیزیہ اسٹیل ملز اور فیلگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ سنایا تھا۔
مزید پڑھیں:العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو 7 سال قید، فلیگ شپ ریفرنس میں بری
عدالت نے نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں شک کی بنیاد پر بری کردیا تھا جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں 7 سال قید کی سزا کے ساتھ ساتھ ایک ارب روپے اور ڈھائی کروڑ ڈالر علیحدہ علیحدہ جرمانہ بھی عائد کیا تھا۔
علاوہ ازیں نواز شریف کو عدالت نے 10 سال کے لیے کوئی بھی عوامی عہدہ رکھنے سے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔
مذکورہ فیصلے کے بعد نواز شریف کو گرفتار کرکے پہلے اڈیالہ جیل اور پھر ان ہی کی درخواست پر انہیں کوٹ لکھپت جیل منتقل کر دیا گیا تھا۔
بعد ازاں رواں سال 3 جنوری کو العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں سزا پانے والے سابق وزیرِاعظم نواز شریف نے اپنی سزا کی معطلی سے متعلق درخواست اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی تھی۔