پاکستان

ایف بی آر کو بے نامی اکاؤنٹس اور جائیداد ضبط کرنے کا اختیار مل گیا

قانون کے تحت ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے لیے فرضی ناموں پر رجسٹرڈ بے نامی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کی جاسکیں گی۔

اسلام آباد : حکومت نے بے نامی ایکٹ 2019 نافذ کردیا جس کے مطابق فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کو فرضی افراد کے نام سے رجسٹر جائیدادیں، مہنگی گاڑیاں اور بینک اکاؤنٹس ضبط کرنے کا اختیار مل گیا۔

اس قانون کے تحت ٹیکس ادائیگی سے بچنے کے لیے فرضی ناموں پر رجسٹرڈ تمام بے نامی منقولہ اور غیر منقولہ جائیدادیں ضبط کی جاسکیں گی۔

خیال رہے کہ بے نامی ایکٹ کا نفاذ 2 سال کی تاخیر کے بعد کیا گیا ہے۔

’بے نامی ‘ کی اصطلاح عموماً ایک شخص کے نام پر دوسرے شخص کو فائدہ پہنچانے کے لیے جائیداد یا اثاثے رکھنے کے طریقہ کار سے متعلق استعمال کی جاتی ہے۔

تاہم اکثر مرتبہ بے نامی کا لفظ غیرقانونی ذرائع سے حاصل کردہ اثاثوں کی ملکیت کو چھپانے، سرکاری فیس یا ٹیکسز کی ادائیگیوں کے خاتمے سے متعلق استعمال کیا جاتا ہے۔

قوانین کے تحت حکومت نے منقولہ اور غیرمنقولہ اثاثوں کے وسل بلورز کے لیے بھاری نقد انعامات کا اعلان بھی کیا ہے۔

ڈان سے بات کرتے ہوئے فیڈرل بیورو آف ریونیو (ایف بی آر) کے ممبر ان لینڈ ریونیو پالیسی ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے کہا کہ پہلے مرحلے میں 3 شہروں( اسلام آباد، لاہور اور کراچی) میں 3 اپروونگ اتھارٹی قائم کی جائیں گی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان اتھارٹیوں کے دائرہ کار سے متعلق ایک 2 دن میں نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔

یہ قانون پارلیمنٹ میں بے نامی ٹرانزیکشنز ایکٹ 2017 کے نام سے جون 2017 میں بنایا گیا تھا لیکن قوانین کو حتمی شکل دینے میں تاخیر کی وجہ سے اس کا نفاذ نہیں ہوسکا تھا۔

گزشتہ روز ایف بی آر نے ایس آر او کے تحت اس ایکٹ کے قوانین جاری کیے تھے۔

ایکٹ کے تحت انکم ٹیکس کمشنر اتھارٹی کے اختیارات حاصل ہوں گے، ابتدائی طور پر آفیسرز بے نامی اثاثوں کی شناخت کے موجود ڈیٹا کی تفتیش کریں گے۔

ٹیکس آفیسر نے کہا کہ ’ پہلے مرحلے میں ہم جائیدادوں کی ٹرانزیکشن اور پلازہ کے نقشوں سے متعلق آفس ڈیٹا فراہم کریں گے‘۔

ابتدائی اقدام کے تحت آفیسر بے نامی اثاثوں کے لیے 90 روز کے دورانیے پر مشتمل ایک نوٹس جاری کرے گا، اس مدت کے دوران آفیسر کیس کی تحقیقات کریں گے تاکہ بے نامی جائیداد یا بینک اکاؤنٹس کی شناخت سے متعلق ایف آئی آر درج ہوسکے۔

بعد ازاں وہ ایف آئی آر متعلقہ اتھارٹی کو بھیج دی جائے گی۔

ڈاکٹر حامد عتیق سرور نے کہا کہ ’ یہ قانون ریونیو کے لیے نہیں بلکہ بے نامی اثاثوں کی روک تھام کے لیے ہے‘۔

مذکورہ قانون کی منظوری سے قبل فرضی ناموں سے اثاثہ جات رجسٹرڈ کروانے والے افراد کو حکومت کی جانب سے ایمنسٹی فراہم کیے جانے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ وہ اس وقت ایسے فیصلے سے لاعلم ہیں۔

یہ خبر ڈان اخبار میں 12 مارچ 2019 کو شائع ہوئی