نقطہ نظر

مقابلے کی صلاحیت سے محروم بھارتی فضائیہ

بھارت میں سوال اٹھنے شروع ہوگئے کہ گھس کر مارنے کا دعوی اپنی جگہ لیکن کیا مسلح افواج ملک میں گھسنے والوں کو روک سکتی ہے؟

پاکستان اور بھارت کی حالیہ کشیدگی کے دوران پاک فضائیہ کے نئے، جدید اور ملٹی رول فائٹر طیارے جے ایف-17 تھنڈر نے جب بھارت کے روسی ساختہ مگ 21 بائیسن (Mig 21 bison) کو مار گرایا تو دنیا بھر میں خبروں کی شہ سرخیاں بن گئیں اور دنیا بھر میں بحث ہونے لگی کہ طیاروں کی تعداد کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی طاقت بھارت کس طرح پاکستان جیسی چھوٹی اور کم طیاروں والی فضائیہ سے مار کھا گیا؟

اس پوری بحث نے بھارتی فضائیہ کے اندر موجود خامیوں کو دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دیا ہے۔ بھارتی مسلح افواج بحری اور بَری میدان میں مار کھانے کے بعد اب فضائی جنگ سے بھی باہر ہوتی نظر آرہی ہے اور بھارتی دفاعی حلقوں میں پاکستان کی حالیہ فضائی کارروائی نے سنسنی پھیلا دی ہے۔ اس کارروائی کے بعد بھارت میں یہ سوال اٹھنے شروع ہوگئے ہیں کہ گھس کر مارنے کا دعوٰی اپنی جگہ، لیکن کیا بھارتی مسلح افواج اس قابل ہیں کہ اگر کوئی ان کے ملک میں گھس آئے تو وہ سرحدوں کا دفاع کرسکیں؟

بھارت کا روسی ساختہ مگ 21 — اے ایف پی

2010 میں بھارتی فضائیہ کا مگ 27 بمبار طیارہ مغربی بنگال میں گر کر تباہ ہوا—کری ایٹوکامنز

یہی وجہ ہے کہ اب بھارتی وزیرِاعظم بھی دبے لفظوں میں شکست کا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر بھارت کے پاس رافیل (Rafale) طیارے ہوتے تو نتائج کچھ اور ہوتے۔ اس اعترافِ شکست کی بڑی وجہ بھارتی فضائیہ کے پرانے اور غیر معیاری لڑاکا طیاروں پر مشتمل فضائی بیڑا ہے۔

بھارتی فضائیہ کو اپنے لڑاکا طیاروں کے لحاظ سے دنیا کی چوتھی بڑی فضائیہ مانا جاتا ہے۔ امریکی فضائیہ کے پاس 5 ہزار سے زائد، روس کے پاس 2244، چین کے پاس 2656 طیارے ہیں، جبکہ بھارت کے پاس 1600 کے لگ بھگ طیارے موجود ہیں۔

اس وقت بھارتی فضائیہ کے پاس 473 لڑاکا طیارے اور 135 اٹیک ایئر کرافٹ جبکہ نگرانی کے لیے مختلف نوعیت کے 13 طیارے ہیں۔ فضا میں ایندھن کی فراہمی کے لیے 6 فیول ٹینکر، 251 ٹرانسپورٹرز، 429 ہیلی کاپٹرز اور 429 تربیتی طیارے ہیں۔ اس پوری فضائیہ کو سنبھالنے کے لیے بھارتی فضائیہ نے بڑی افرادی قوت کو بھرتی کیا ہے۔ بھارت کی 7 ایئر کمانڈز اور 60 ایئر بیس آپریشن ہیں۔ اس کے علاوہ بھارتی بحریہ نے اپنے ایئر کرافٹ کیریئر کے لیے بھی الگ سے فارمیشن قائم کیے ہوئے ہیں۔

بھارت نے اپنے قیام سے اب تک پاکستان اور چین کے ساتھ مختلف جنگیں لڑی ہیں اور ہر لڑائی کے بعد وار ریویو کمیٹی (war review committee) قائم کی جاتی ہے جو جنگ میں ہونے والے تجربات کی روشنی میں مسلح افواج کے حوالے سے اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرتی ہے۔ بھارت کی وار ریویو کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں حکومت کو تجویز کیا گیا ہے کہ غربت اور افلاس کے باوجود بھارت اپنے جی ڈی پی کا تقریباً 5 فیصد دفاعی مقاصد کے لیے استعمال کرے۔

بھارت نے اپنی فوجی حکمت عملی 2 طرفہ لڑائی کے اعتبار سے مرتب کی ہے، یعنی پاکستان اور چین کے اعتبار سے۔ کمیٹی نے سفارش کی ہے کہ بھارت فضائی برتری کے لیے چین کے ایک طیارے کے مقابلے میں 3 اور پاکستان کے ایک طیارے کے مقابلے میں 2 لڑاکا طیاروں کا بیڑہ تیار کرے، اور اس مقصد کے لیے بھارت کے پاس کم از کم لڑاکا طیاروں کے 45 اسکورڈن ہونے چاہئیں مگر بھارتی حکومت نے اب تک 42 اسکورڈن کی منظوری دی ہے۔ بھارت میں فیصلہ سازی میں سست روی، کرپشن اور بدعنوانی کی وجہ سے بھارتی فضائیہ اپ گریڈ ہونے کے بجائے دن بہ دن سکڑتی جارہی ہے۔ بھارت کے پاس اس وقت 32 اسکورڈن موجود ہیں۔ جس میں سے صرف 31 اسکورڈن موثر ہیں۔

ان اسکورڈن میں ملٹی رول (Multirole) لڑاکا طیاروں مگ 21، مگ 29 (Mig 29) اور میراج 2000 (Mirage) بیڑے کا حصہ ہیں، جبکہ جیگوار (Jaguar) اور مگ 27 (Mig 27) زمینی حملے کے لیے ہیں۔

2027ء تک جیگوار طیارے بھی ریٹائر ہونا شروع ہوجائیں گے—اے ایف پی

مارچ 2012 میں مارچ میں میراج 2000 کریش ہوا—اے ایف پی

بھارتی فضائیہ نے اپنے ترقیاتی پروگرام کے لیے سال 2022ء تک 11 مزید اسکورڈن کو بیڑے میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ جس میں سکھوئی (Sukhoi)، رافیل اور بھارت میں تیار کردہ تیجس (Tejas) طیاروں کے 7 اسکورڈن کا آرڈر دیا جاچکا ہے۔

مگر ساتھ ساتھ بھارتی فضائیہ کے عمر رسیدہ طیارے بھی اس سے زیادہ تیزی سے ختم ہورہے ہیں۔ سال 2022ء تک مگ 21 بائسن کے 6 اسکورڈن اور 2025ء تک مزید 2 اسکورڈن ریٹائر ہوجائیں گے جبکہ 2027ء تک جیگوار طیارے بھی ریٹائر ہونا شروع ہوجائیں گے۔ اس طرح طیاروں کی تعداد میں اضافے کے باوجود سال 2027ء تک بھارتی فضائیہ کے پاس موثر اسکورڈن کی تعداد محض 29 رہ جائے گی۔

رافیل طیاروں کی خریداری میں کن کن طریقوں سے کرپشن ہوئی ہے، آئیے آپ کو تفصیل سے بتاتے ہیں۔

رافیل طیارے اور کرپشن

بھارت میں فیصلہ سازی قومی سطح پر بہت ہی سست ہے۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب ایک اسائمنٹ کے لیے 2012ء میں چند روز دہلی جانے کا اتفاق ہوا۔ بازار میں خریداری کرتے وقت یہ بات مجھ پر آشکار ہوئی کہ ایک عام بھارتی بھی خریداری کرتے وقت ضرورت سے زیادہ سوچ بچار کرتا ہے۔

بھارتیوں کا یہ رویہ وہاں کی حکومت میں بھی نظر آتا ہے۔ بھارتی حکومت میں فیصلہ سازی بہت ہی سست، ناقص اور غیر معیاری ہے۔ بھارتی بحریہ کے سابق سربراہ ڈی کے جوشی کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارتِ دفاع میں اتنی صلاحیت بھی نہیں کہ ایک بیٹری ہی خرید لے۔ فیصلہ سازی میں سقم اور صلاحیت کے علاوہ بدعنوانی اور کرپشن بھی ہر دفاعی ڈیل میں سامنے آتی ہے۔

کانگریس کے دور میں بوفرز توپوں میں رشوت، گارگل جنگ میں غیر معیاری کفن باکس کی خریداری اور افواج کو دیے جانے والے غیر معیاری کھانے کے اسکینڈل تو سامنے آچکے ہیں۔ اس تمام صورتحال کی وجہ سے بھارت فرانس سے رافیل طیاروں کی خریداری کرنے میں ناکام رہا ہے اور ایک دہائی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت تاحال رافیل طیارے خریدنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔

بھارت میں ایئر فورس کے پرانے ہوتے طیاروں کی وجہ سے تشویش پائی جاتی تھی۔ بھارت کو فوری طور پر اپنی کم از کم فضائی دفاعی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے بڑے پیمانے پر طیاروں کی ضرورت تھی۔ اس مقصد کے لیے نئی دہلی کی حکومت نے سال 2008ء میں نئے طیاروں کی خریداری کے لیے ٹینڈر جاری کیا۔ بھارت نے 126 طیارے خریدنے میں دلچسپی ظاہر کی اور اس ڈیل کی مالیت 7 ارب 70 کروڑ ڈالر لگائی گئی جو بھارت کا سب سے مہنگا دفاعی ٹینڈر تھا۔

بھارت ان نئے طیاروں سے اپنے پرانے ہوتے سکھوئی اور مگ طیاروں کو تبدیل کرنا چاہتا تھا۔ اس ٹینڈر میں امریکی کمپنی بوئنگ نے اپنے ایف-18 لڑاکا طیارے، فرانسیسی رافیل طیارے، یورو فائٹر ٹائیفون (Eurofighter Typhoon)، روسی طیارے مگ 25 (Mig 25)، ساب کے گرپین طیارے (Saab JAS 39 Gripen) اور امریکی کمپنی لوک ہیڈ مارٹن (Lockheed Martin) نے ایف-16 فلکن طیاروں کی فروخت کے لیے پیشکش بھارت کو فراہم کیں۔

23 مئی 2017 کو بھارتی فضائیہ کا سکھوئی طیارہ آسام میں گر کر تباہ ہوا—کری ایٹو کامنز

تیجس کی تیاری کے دوران ایسے آلات تیار کیے گئے جو یا تو جہاز کے ڈھانچے میں فٹ نہیں ہوتے تھے یا پھر طیارے کے دیگر آلات کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے—کری ایٹو کامنز

تمام تر ٹیکنیکل جانچ پڑتال کے بعد بھارتی فضائیہ نے 2 طیاروں کو شارٹ لسٹ کیا جس میں ٹائیفون اور رافیل طیارے شامل تھے۔ اس دوران ٹینڈر کی مالیت کئی گناہ بڑھ کر 30 ارب ڈالر تک پہنچ چکی تھی۔

جنوری 2012ء کو بھارتی وزارت دفاع نے اعلان کیا کہ فضائیہ کے لیے دیے گئے Medium Multi Role Combat Aircraft (MMRCA) طیاروں کے ٹینڈر میں فرانسیسی رافیل طیاروں کا انتخاب کیا گیا ہے۔ جس میں مجموعی طور پر 126 طیارے بھارت کو فراہم کیے جانے تھے اور مزید 63 طیارے بھارت کی خواہش پر فراہم ہوتے۔

معاہدے کے تحت 18 رافیل طیارے مکمل تیار حالت میں بھارت کو فراہم کیے جاتے جبکہ باقی ماندہ 108 طیاروں کی تیاری ہندوستان ایروناٹیکل لمیٹڈ (ایچ اے ایل) میں ہونا تھی۔ بھارتی حکومت نے معاہدے میں ایچ اے ایل میں تیار ہونے والے طیاروں کے معیار کی ضمانت رافیل بنانے والی فرانسیسی کمپنی سے طلب کی جس پر معاملہ لٹک گیا، کیونکہ فرانسیسی کمپنی معیار کی ضمانت دینے کو تیار نہ تھی۔

نریندر مودی نے اس دوران انتخاب جیت لیا اور کانگریس کو بدترین شکست ہوئی۔ مودی کی کامیابی پر بھارتی مسلح افواج کو امید تھی کہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ان کی ضروریات کو پورا کرے گی کیونکہ مودی نے اپنی انتخابی مہم میں بھارت کو سپر پاور بنانے کے لیے مسلح افواج کو مضبوط کرنے کے بڑے بڑے دعوے کیے تھے۔

مودی نے دورہ فرانس کے دوران کانگریس کے معاہدے کو منسوخ کرتے ہوئے فوری ضرورت کو پورا کرنے کے لیے 36 رافیل طیاروں کی خریداری کا اعلان کیا۔ اس خریداری کے لیے بھارت کو 8 ارب 60 کروڑ یورو کی ادائیگی کرنا تھی۔ مگر ساتھ ہی معاہدے میں متعدد نقائص کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ انیل امبانی کی ریلائنس ڈیفنس لمیٹڈ کمپنی کو شامل کیے جانے کی خبروں نے خریداری کے عمل کو ایک مرتبہ پھر روک دیا ہے۔

بھارت میں رافیل طیاروں کی خریداری سے متعلق تاحال شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ اگر صرف رافیل طیارے میں ہونے والی غلطیوں اور بدعنوانیوں کو ضبط تحریر لایا جائے تو اس طرح کے کئی بلاگ لکھنے کے باوجود کہانی مکمل نہیں ہوسکے گی۔

لیکن اب تک کی اہم خبر یہ ہے کہ تاحال بھارتی فضائیہ پاکستان اور چین کے مقابلے میں خود کو موثر بنانے کے لیے نئے طیاروں کے انتظار میں ہے، اور لگتا یہی ہے کہ بھارت کو اس حوالے سے بہت جلد کوئی کامیابی ملتی نظر نہیں آرہی۔ یوں بھارتی فضائیہ جدید اور موثر ہونے کے بجائے کاٹھ کباڑ کا ڈھیر بنتی جارہی ہے۔ لیکن یہ مان لیں کہ اگر بھارتی فضائیہ طیاروں کی تعداد کو کسی بھی طرح پوری کر بھی لے، تب بھی یہ اہم سوال موجود رہے گا کہ وہ پروفیشنل پائلٹس اور ایئرمینوں کی قلت کو کس طرح پوری کرسکے گی؟ کیونکہ صلاحیت پیسے خرچ کرنے سے کبھی بھی حاصل نہیں ہوسکتی ہے۔

بھارتی فضائیہ کے حادثات

پرانے ہوتے طیاروں، تربیت اور پیشہ ورانہ عزم کی کمی کی وجہ سے بھارتی فضائیہ کے مسائل بہت تیزی کے ساتھ بڑھتے جارہے ہیں اور طویل عرصے سے بھارتی فضائیہ میں حادثات ملکی اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں کی زینت بن رہے ہیں۔ بھارت میں مگ طیاروں کے حادثات میں اب تک 170 پائلٹس اور 10 شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور صرف سال 2010ء سے 2013ء کے دوران 14 سے زائد حادثات ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مگ طیاروں کو ’اڑتے ہوئے کفن‘ یا ’بیوہ بنانے والے طیارے‘ کہا جاتا ہے۔ اسی موضوع پر بالی وڈ نے ’رنگ دے بسنتی‘ کے نام سے ایک فلم بھی بنائی تھی۔ بھارتی طیاروں کے اسی طرح گرنے پر سال 2014ء میں برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ہیڈ لائن لگائی کہ

Why are Indian's Air Force Planes Falling Out Of The Sky

بھارتی فضائیہ کے حالیہ دنوں میں کریش ہونے والے طیاروں پر نظر ڈالی جائے تو سال 2019ء اب تک بہت ہی مہلک ثابت ہوا ہے۔ بھارتی فضائیہ اپنے 8 لڑاکا طیاروں سے محروم ہوچکی ہے۔

آئیے آپ کے سامنے 2010ء سے اب تک کی مکمل ٹائم لائن پیش کرتے ہیں کہ کب کب بھارت میں فضائیہ حادثہ ہوا ہے۔

2010ء

2011ء

2012ء

2013ء

3 مارچ 2010 کو بھارتی فضائیہ کا ایچ اے ایل کرن ایم کے ٹو ایڈین ایوی ایشن شو میں عمارت سے ٹکرا کر تباہ ہوا—کری ایٹو کامنز

2014ء

2015ء

2016ء

2017ء

2011 میں بھارتی آرمی کا چیتا ہیلی کاپٹر مغربی بھارت میں گر کر تباہ ہوا جس میں دونوں پائلٹس مارے گئے—اے ایف پی

2018ء

2019ء

پیشہ ورانہ عزم کی کمی

بھارتی فضائیہ میں پیشہ ورانہ عزم کی کمی ہر سطح پر دکھائی دیتی ہے۔ فضائیہ کی یہ حالت ہے کہ وہ پاکستان کی طرف سے آنے والے گیس کے غبارے سے بھی ڈر جاتی ہے اور اگر کوئی گیس کا غبارہ پاکستان کی سرحد سے بھارت میں داخل ہوجائے تو وہ اس قدر گھبرا جاتے ہیں کہ لڑاکا طیارے فضا میں اڑا دیتے ہیں۔

یہ مذاق نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ گزشتہ دنوں اسی طرح کا ایک گیس کا غبارہ جس پر ’سالگرہ مبارک ہو‘ لکھا تھا سرحد پار چلا گیا۔ جب بھارتی فضائیہ کو اس کی اطلاع ملی تو اس نے فوری طور پر اپنا سکھوئی ایس یو 30 طیارہ غبارے کو مارنے کے لیے فضا میں بھیج دیا۔ طیارے نے غبارے پر گولیاں برسا دیں۔ غبارے کی باقیات سے تو کچھ نہ ملا مگر بھارتی فضائیہ اور دیگر اداروں کی کارکردگی کا پول ضرور کھل کر سامنے آگیا۔ محض چند روپے کے غبارے کو مارنے کے لیے لاکھوں ڈالر کا اسلحہ خرچ کردیا گیا۔

مزے کی بات یہ کہ ایسا ہرگز پہلی مرتبہ نہیں ہوا ہے بلکہ 27 جنوری 2016ء اور 14 جولائی 2018ء کو بھی بھارتی فضائیہ نے پاکستان سے آنے والے غباروں کو اپنے جنگی جہازوں کے ذریعے زیر کیا تھا۔

2014ء میں بھارتی فضائیہ کا سی-130 ہرکولس طیارہ مدھیہ پردیش میں گر کر تباہ ہوا جس میں 5 فوجی مارے گئے—اے ایف پی

غالباً یہ صرف بھارتی فضائیہ ہی ہے جو صرف لڑاکا طیاروں میں مختلف نوعیت اور اقسام کے طیارے استعمال کررہی ہے۔ جس کی وجہ سے ان کی دیکھ بھال میں مشکلات کا سامنا ہے۔ بھارتی فضائیہ کو 7 مختلف نوعیت کے طیاروں کے فاضل پرزہ جات کو ہمہ وقت اسٹور میں رکھنا ہوتا ہے اور ہر قسم کے طیارے کی دیکھ بھال کے لیے مختلف ورکشاپس کے قیام کے علاوہ افرادی قوت کو بھی تربیت دینا ہوتی ہے۔

اسی قسم کے مسائل کا سامنا بھارتی فضائیہ کو پائلٹس اور خصوصاً لڑکا طیاروں کے پائلٹس کی تربیت میں بھی کرنا پڑتا ہے۔ بھارت کو اپنے پائلٹس کی تربیت کے لیے 7 مختلف طرح کے تربیتی کورسز کا اہتمام کرنا ہوتا ہے۔ اسی طرح بھارتی پائلٹس کو طیاروں کی مرمت اور دیکھ بھال پر بھی شک رہتا ہے اور وہ کسی بھی ہنگامی صورتحال میں طیارے کو سنھبالنے کے بجائے طیارے کو چھوڑنے میں ہی عافیت جانتے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ چھڑپ میں بھارت کی جانب سے 3 مختلف طرح کے لڑاکا طیاروں کو استعمال کیا گیا، جس میں مگ طیاروں کے علاوہ جیگوار اور سکھوئی طیارے شامل تھے۔

2013 میں چیتک ہیلی کاپٹر آئی این 445 خلیج بنگال میں گر کر تباہ ہوگیا جس میں 6 اہلکار ہلاک ہوئے—اے ایف پی

بھارتی نوجوانوں کا یہ معاملہ ہے کہ وہ اب فضائیہ میں جانا تک نہیں چاہتے، جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بھارتی فضائیہ کو ایئر مینز کی قلت کا سامنا ہے، جبکہ پائلٹس کی تعداد بھی خطرناک حد تک کم ہے۔ بھارتی لڑاکا طیاروں کے لیے دستیاب پائلٹس کا تناسب ایک طیارے کے مقابلے میں اعشاریہ 8 جبکہ امریکی فضائیہ میں ہر طیارے کے لیے 2 پائلٹ اور پاکستان میں ہر طیارے کے لیے ڈھائی پائلٹ دستیاب ہیں۔ بھارت میں لڑکا طیاروں کے مقابلے میں دستیاب پائلٹس کا تناسب دنیا میں سب سے کم ہے۔

اس کی وجوہات میں سخت حالات، لڑائی کے بغیر جان کو خطرہ، تنخواہوں اور مراعات کا سرکاری شعبے سے کم ہونا اور نجی شعبے میں پُرکشش تنخواہ اہم وجوہات ہیں۔ اس کے علاوہ لڑکا طیاروں کے لیے جسمانی معیار کے مطابق نوجوانوں کی تعداد بھی دستیاب نہیں ہے۔

میک ان انڈیا کی ناکامی

1940ء میں بھارت میں برطانوی حکومت کی جانب سے بنگلور میں دوسری جنگِ عظیم کے دوران طیاروں کی تیاری کے لیے ایک ادارہ قائم کیا گیا، جس کا نام ہندوستان ایروناٹیکل لمیٹیڈ (ایچ اے ایل) رکھا گیا۔ بھارت کی سیاسی قیادت نے میک ان انڈیا کے نعرے کو پروان چڑھانے کے لیے ایچ اے ایل کو ایوی ایشن کا مرکز بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ وزارت دفاع کے ماتحت کام کرنے والے ایچ اے ایل کو ترقی کرنے کے لیے متعدد ملکی اور غیر ملکی پروجیکٹس دیے گئے تھے۔

بھارتی حکومت نے ایچ اے ایل کو تقریباً 50 ارب ڈالر مالیت کے متعدد منصوبے دیئے گئے، جس میں روسی ساختہ سکھوئی طیاروں کی مینوفیکچرنگ، مرمت اور دیکھ بھال کے علاوہ مگ سمیت مختلف طیاروں کے پرزہ جات بنانے کے لائسنس بھی شامل تھے۔ ایچ اے ایل کے اثاثوں کی مالیت 8ارب ڈالر سے زائد ہے جبکہ اس کا سالانہ منافع 37 کروڑ ہے۔

مگر اس ادارے کی کارکردگی بھی نہایت ہی مایوس کن ہے۔ ایچ اے ایل کی سالانہ 12 تیجس طیارے پیداوار کی صلاحیت ہے، لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ اس ادارے نے سال 2010ء سے اب تک یعنی تقریباً 9 سالوں میں صرف 12 تیجس طیارے ہی فضائیہ کے حوالے کیے ہیں۔ لیکن ان طیاروں کو صرف تربیت کے لیے ہی استعمال کیا جارہا ہے کیونکہ ایچ اے ایل نے ان طیاروں کی مکمل استعمال کی منظوری نہیں دی ہے۔

تیجس ایل سی اے طیارے میں تاخیر

بھارت نے 1980ء میں لائٹ کومبیٹ طیارے تیار کرنے کے منصوبے کا آغاز کیا اور اس طیارے کی ڈیزائننگ کا آرڈر ایروناٹیکل ڈیویلپمنٹ ایجنسی کو دیا تھا۔ اس منصوبے کا مقصد اپنی مدت پوری کرنے والے مگ 21 طیاروں کو تبدیل کرنا تھا۔ مگر تاحال تیجس طیارے بھارتی فضائیہ میں شامل نہیں ہوسکے ہیں۔ ایچ اے ایل نے یہ طیارے بھارتی فضائیہ کے حوالے کرتے وقت صرف ابتدائی استعمال کی منظوری دی ہے۔ اس لیے تیجس طیارے کو صرف اور صرف تربیتی طیارے کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ڈیزائین اور آپریشن میں متعدد خامیوں کی وجہ سے تیجس طیارے کا منصوبہ تعطل کا شکار رہا اور انتہائی تاخیر کے بعد سال 2010ء میں تیجس طیارے کے ایک اسکورڈن کو بھارتی فضائیہ میں شامل کرنے کے عمل کا آغاز کیا گیا۔ سال 2016ء میں تیجس کو کسی بھی غیر ملکی ایئر شو میں اڑنے کی اجازت ملی۔

تیجس کی تیاری میں یہ بات سامنے آئی کہ مختلف پرزہ جات بنانے والے ماہرین میں ایک دوسرے سے رابطے کا فقدان پایا گیا اور ایسے آلات تیار کیے گئے جو یا تو جہاز کے ڈھانچے میں فٹ نہیں ہوتے تھے یا پھر طیارے کے دیگر آلات کے ساتھ کام نہیں کرتے تھے۔

تیجس کے مقابلے میں پاکستان نے 1995ء میں چین کے ساتھ جے ایف-17 تھنڈر طیاروں کے بنانے کا معاہدہ کیا اور سال 2007ء میں اس طیارے کو پاک فضائیہ کا حصہ بنادیا گیا اور اب تو جے ایف-17 تھنڈر کے اپ گریڈڈ ورژن بھی آچکے ہیں۔


راجہ کامران شعبہ صحافت سے 2000ء سے وابستہ ہیں۔ اس وقت نیو ٹی وی میں بطور سینئر رپورٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ آپ پرنٹ، الیکٹرانک اور ڈیجیٹل میڈیا میں کام کا تجربہ رکھتے ہیں۔

راجہ کامران

راجہ کامران نیو ٹی وی سے وابستہ سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ آپ کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔