نقطہ نظر

پی ایس ایل کا آسٹریلیا، جنوبی افریقہ اور پاکستان کون؟

اگر ہم پی ایس ایل کارکردگی کی بنیاد پر ٹیموں کا تقابل انٹرنیشنل کرکٹ سے کریں تو بڑی دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم میں ایک اور 'فُل ہاؤس' کے ساتھ ہی پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچا اور ہر سال کی طرح اس بار بھی کوئٹہ، پشاور، اسلام آباد اور کراچی پلے آف مرحلے میں پہنچے ہیں۔

مکمل طور پر متحدہ عرب امارات میں ہونے والا پی ایس ایل کا پہلا سیزن ہو یا لاہور کے تاریخی فائنل کا حامل دوسرا، لاہور و کراچی کے میچز کے ساتھ کھیلا گیا یادگار پچھلا سال ہو یا اس بار جبکہ آخری 8 میچز کراچی میں ہو رہے ہیں، ہر مرتبہ یہی ہوتا ہے کہ یہی 'فنٹاسٹک 4' پنجاب کی ٹیموں کو روندتے ہوئے اگلے مرحلے تک پہنچ جاتے ہیں۔

اب کیونکہ ہر سال ہی ایسا ہوتا ہے تو 4 سال میں ہر ٹیم کی کارکردگی کا ایک خاص اور پختہ تاثر بن چکا ہے، بالکل ویسا ہی جیسا دہائیوں تک کی پرفارمنس کی بدولت انٹرنیشنل کرکٹ کی مختلف ٹیموں کا موجود ہے۔

اگر ہم پی ایس ایل کارکردگی کی بنیاد پر ٹیموں کا تقابل انٹرنیشنل کرکٹ سے کریں تو بڑی دلچسپ صورت حال سامنے آتی ہے۔ آپ بھی ضرور جاننا چاہیں گے کہ پی ایس ایل میں کس ٹیم کی کارکردگی بین الاقوامی کرکٹ میں آسٹریلیا جیسی ہے؟ کون پی ایس ایل کا پاکستان ہے، کون بھارت؟ کون جنوبی افریقہ کی طرح ہے یعنی ہر نازک مرحلے پر پھنس جاتا ہے؟

پشاور زلمی - آسٹریلیا

پی ایس ایل 4 میں پشاور ایک مرتبہ پھر پوائنٹس ٹیبل پر نمبر وَن ہے۔ اس سے پہلے زلمی 2016ء اور 2017ء میں بھی سب سے آگے تھا بلکہ ایک سال چیمپئن بھی بنا۔ اگر کارکردگی دیکھیں تو ہم پشاور زلمی کو پاکستان سپر لیگ کا ’آسٹریلیا‘ کہہ سکتے ہیں۔ موجودہ عالمی چیمپئن آسٹریلیا کے پاس ہوسکتا ہے اب پہلے والا دَم خم نظر نہ آتا ہو لیکن یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آسٹریلیا پچھلے 20 سال میں کرکٹ کے میدانوں پر سب سے زیادہ کامیاب ٹیم ہے۔

پشاور نے پی ایس ایل تاریخ میں اب تک کُل 44 میچز کھیلے ہیں، جن میں سے 26 مقابلوں میں کامیابی نے اس کے قدم چومے۔ یوں 60.46 فیصد جیت کی شرح کے ساتھ زلمی کسی بھی دوسری ٹیم سے آگے ہیں۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

انفرادی سطح پر بھی دیکھیں تو پشاور کے کھلاڑی پی ایس ایل میں نمایاں نظر آتے ہیں۔ سب سے زیادہ رنز کامران اکمل کے ہیں جو مسلسل چوتھا سیزن پشاور کی طرف سے ہی کھیل رہے ہیں جبکہ باؤلنگ میں وہاب ریاض اور حسن علی کا راج ہے، جو شروع سے ہی زلمی ہیں اور آج تک ٹیم نہیں بدلی۔ کامران اکمل کسی بھی وکٹ کیپر سے زیادہ 38 شکار بھی رکھتے ہیں۔

یعنی اجتماعی و انفرادی دونوں سطح پر پشاور زلمی پاکستان سپر لیگ میں اس طرح چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے جیسا کہ انٹرنیشنل کرکٹ میں آسٹریلیا رہا، جس کی کامیابیوں کے ساتھ ساتھ انفرادی سطح پر کھلاڑیوں کی کارکردگی بھی بہت نمایاں رہی ہے اور پھر وہ بھی پشاور زلمی کی طرح پیلے رنگ کی کٹ میں ہی کھیلتا ہے۔

اسلام آباد یونائیٹڈ - بھارت

پاکستان سپر لیگ کے پہلے سیزن میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے رہنے والوں کے سوا شاید ہی کوئی اسلام آباد یونائیٹڈ کو خاطر میں لایا ہو لیکن انہوں نے 2 مرتبہ چیمپئن بن کر خود کو ثابت کیا ہے کہ وہ بڑے مقابلوں کی ٹیم ہے، بالکل بھارت کی طرح۔ جس طرح بھارت نے پچھلے کچھ عرصے میں ورلڈ کپ سے لے کر چیمپئنز ٹرافی اور ورلڈ ٹی ٹوئنٹی سے لے کر ٹیسٹ میں نمبر ایک بننے تک تمام اعزازات حاصل کیے ہیں اور آج بھی مسلسل کارکردگی پیش کرنے والی ٹیم ہے، بالکل اسی طرح پاکستان سپر لیگ میں اسلام آباد یونائیٹڈ ہے۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

2019ء میں اسلام آباد دفاعی چیمپئن ہے، گو کہ مصباح الحق کی خدمات حاصل نہیں، جو ٹیم کے لیے رہنما کی حیثیت رکھتے تھے لیکن ان کی عدم موجودگی میں بھی ٹیم کی کارکردگی اتنی بُری نہیں رہی۔ اپنے آدھے میچز جیت کر یونائیٹڈ اگلے مرحلے میں آچکے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت کی طرح آخری وار کس طرح کرتے ہیں؟ جس طرح بھارت تیسرے ورلڈ کپ کی تلاش میں ہے اس طرح اسلام آباد کو بھی اب تیسری پی ایس ایل ٹرافی کا انتظار ہے۔ دیکھتے ہیں کس کی خواہش پہلے پوری ہوتی ہے۔

کوئٹہ گلیڈی ایٹرز – جنوبی افریقہ

پشاور زلمی کے بعد پاکستان سپر لیگ کی سب سے کامیاب ٹیم بلاشبہ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پچھلے 2 سال تو کئی ماہرین نے کوئٹہ کو اعزاز کے لیے فیورٹ ہی قرار دیا تھا۔ ٹیم 2 مرتبہ پی ایس ایل فائنل بھی کھیل چکی ہے لیکن اس کی قسمت بالکل ویسی ہی ہے جیسی انٹرنیشنل کرکٹ میں جنوبی افریقہ کی۔

جنوبی افریقہ 1992ء سے لے کر آج تک ہر عالمی ٹورنامنٹ میں اہم مرحلے پر پہنچ کر ہار جاتا ہے۔ گو کہ کوئٹہ اس سے ایک قدم آگے ہے کہ 2 مرتبہ فائنل کھیلا ہے، جنوبی افریقہ کو تو یہ اعزاز بھی نہیں ملا۔ لیکن قسمت کے معاملے میں دونوں ایک جیسے ہیں۔ پے در پے کامیابیاں سمیٹتے ہیں، توقعات آسمان پر پہنچاتے ہیں اور پھر ٹائٹل جیتنے کا خواب چکنا چور ہوجاتا ہے۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

پی ایس ایل 1 کے فائنل میں تو انہیں شکست ہوئی، لیکن دوسرے میں کوئٹہ کے تمام اہم کھلاڑی سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نہیں آئے کہ جہاں لاہور میں انہوں نے فائنل کھیلنا تھا۔ نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا۔ یہی نہیں بلکہ تیسرے سیزن کے eliminator میں پشاور زلمی سے صرف ایک رن سے ہار گئے اور فائنل کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔ اب اس سال بھی بہت عمدہ کارکردگی دکھائی ہے اور پشاور کی طرح 10 میں سے 7 میچز جیتے ہیں بلکہ اب تو ان کے پاس تمام اہم کھلاڑی بھی موجود ہیں جو کراچی میں خوب کھیل رہے ہیں۔ لیکن کیا قسمت بھی اس مرتبہ کوئٹہ کے ساتھ ہے؟ کیا کوئٹہ خود پر جنوبی افریقہ کی طرح لگا ’چوکرز‘ کا داغ مٹا پائے گا؟ دیکھتے ہیں۔

کراچی کنگز – نیوزی لینڈ

کراچی کنگز کو اگر ہم انٹرنیشنل کرکٹ میں نیوزی لینڈ سے مشابہت دیں تو غلط نہیں ہوگا۔ نیوزی لینڈ کو ہر بڑے ٹورنامنٹ میں 'چھپا رستم' سمجھا جاتا ہے اور یہ کبھی بہت اچھی اور کبھی بُری کارکردگی دکھا کر اگلے مرحلے تک پہنچ بھی جاتا ہے لیکن کوارٹر فائنل سیمی فائنل میں آکر 'ان کی موت واقع ہوجاتی ہے'، بالکل کراچی کنگز کی طرح۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹویٹر

آپ کو معلوم ہوگا کہ پی ایس ایل 1 سے لے کر آج چوتھے سیزن تک کنگز نے ہر مرتبہ پلے آف میں جگہ بنائی ہے لیکن ہمیشہ شکست بھی کھائی ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے سال یہ پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر پر آئے، یعنی انہیں پلے آف میں ڈبل چانس ملا لیکن نہ صرف کوالیفائر 1 ہارے بلکہ eliminator میں بھی شکست کھا کر اعزاز کی دوڑ سے باہر ہوگئے۔ ویسے ہی جس طرح نیوزی لینڈ ورلڈ کپ ہو یا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی، ہر ٹورنامنٹ میں آگے پہنچ جاتا ہے لیکن اہم مقابلہ ہار جاتا ہے۔ دیکھتے ہیں کراچی اس مرتبہ نیوزی لینڈ ہی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے ورلڈ کپ 2015ء کی طرح فائنل تک پہنچتا ہے یا نہیں؟ ویسے پہنچ جائے تو کہیں نیوزی لینڈ کی طرح ہار ہی نہ جائے۔

ملتان سلطانز – بنگلہ دیش

پاکستان سپر لیگ میں ملتان کی تاریخ اتنی پرانی نہیں ہے، لیکن 2 سال میں ہی دیکھ لیا ہے کہ سلطانز بالکل بنگلہ دیش کی قومی کرکٹ ٹیم کی طرح ہیں۔ نہ ان سے کوئی بڑی توقعات رکھتا ہے، نہ کسی کو امید ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کوئی قابلِ ذکر کارنامہ سر انجام دے پاتے ہیں۔ اب تک کھیلے گئے دونوں سیزنز میں ملتان سلطانز اتنی ہی خاموشی سے پی ایس ایل سے باہر ہوئے ہیں، جتنے مزے سے بنگلہ دیش بڑے ٹورنامنٹس سے نکال دیا جاتا ہے۔ اس مرتبہ تو ملتان سلطانز کے مالک تک بدل گئے لیکن نتیجہ نہیں بدلا۔ دیکھتے ہیں بنگلہ دیش اور ملتان سلطانز کو اپنے شکنجے توڑنے میں مزید کتنا عرصہ لگتا ہے۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

لاہور قلندرز – پاکستان

مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ کسی کو یہ مشابہت اچھی نہیں لگے گی لیکن آپ ہی بتائیں کیا ہمارے 'شاہین' کسی قلندر سے کم ہیں؟ بتائیں دنیا کی سب سے unpredictable ٹیم کون سی ہے؟ بلاشبہ پاکستان اور پی ایس ایل میں کون ہے جس کے بارے میں کچھ بھی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں؟ یقیناً لاہور قلندرز! ابھی کچھ دن پہلے ہی آپ نے دیکھا ہوگا کہ قلندرز پشاور کے خلاف ایک مقابلے میں صرف 78 رنز پر ڈھیر ہوگئے، لیکن پھر اگلے ہی مقابلے میں 201 رنز کا ہدف حاصل کرلیا۔

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

جس طرح ہم قومی ٹیم سے ہر بڑے ٹورنامنٹ میں بڑی بڑی امیدیں وابستہ کرتے ہیں، اسی طرح لاہوری بھی قلندروں سے بڑی توقعات باندھتے ہیں لیکن اسٹار پاور ہونے کے باوجود یہ کبھی کچھ نہیں کر پائے۔ اب تو رانا فواد صاحب کا دل بھی ٹوٹ چکا ہے تو ان کو یاد دلا دیں کہ جس طرح ہمارے دل سے پاکستان کرکٹ ٹیم کی محبت کسی صورت نہیں نکل سکتی، بالکل اسی طرح لاہور قلندرز بھی ہر پاکستانی کے دل میں ہیں۔ جب بھی قلندرز کو اپنے حصے کا 1992ء یا 2009ء ملا آپ دیکھیں گے پوری قوم کس طرح ان کے ساتھ جشن مناتی ہے۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔