افسانہ: میں کہاں جاؤں گی؟
دُبلا پتلا جسم ہڈیوں کے ڈھانچے میں تبدیل ہوچکا تھا، بال بکھرے ہوئے تھے، نیند کو ترستی ہوئی خشک آنکھیں اس بیابان کا پتہ بتا رہی تھیں، جہاں امید کا آخری چراغ بھی بجھا دیا گیا ہو، جہاں چارسو تاریکی ہی تاریکی پھیلی ہوئی تھی۔ ان ویران آنکھوں میں کبھی شہر آباد تھا لیکن اب اس شہر کو تاراج ہوئے کئی برس بیت گئے ہیں۔ اب ان کلر زدہ آنکھوں میں صرف نمک ہی نمک باقی بچا تھا، جو آہستہ آہستہ ان آنکھوں کی بینائی تک کو کھاتا جا رہا تھا۔ لیکن آج ان پتھریلی آنکھوں پر ایسی چوٹ پڑی تھی کہ ان میں سے آب زم زم کی طرح کوئی چشمہ پھوٹ پڑا تھا، آنسو پگھلتی ہوئی موم بتی کے قطروں کی طرح بہہ رہے تھے۔
وہ دونوں ہاتھ جوڑے اس کے سامنے دو زانو ہوئے بیٹھی تھی، خدا کے لیے مجھے گھر سے تو مت نکالیے، میں اتنی رات گئے کہاں جاؤں گی؟ آپ جو بھی کہیں گے میں کرنے کے لیے تیار ہوں، خدا کے لیے مجھے نوکرانی سمجھ کر رکھ لیجیے لیکن مجھے اس طرح باہر نہ پھینکیے۔ مجھ سے جوتے پالش کروا لیجیے گا، میں اپنے لیے کوئی کپڑا نہیں مانگوں گی، میرا کھانا ایک وقت کا کردیجیے، میں اسٹور روم میں رہ لوں گی لیکن مجھ سے میرا آخری ٹھکانہ مت چھینیے، خدا کا واسطہ ہے، کچھ تو رحم کیجیے!