ملک ریاض: ادنیٰ ٹھیکیدار سے رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے تک کا سفر
ایک عرصے تک ملک ریاض کو ملک ریاض ہونے کا تصور بہت ہی بھاتا رہا ہوگا۔
2018ء میں حالات ان پر غالب آنے سے پہلے تک وہ بے تحاشا دولت اکٹھا کرنے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے اوپر لگنے والے واضح کرمنل نوعیت کے نہ سہی مگر خفیہ طور پر غیر قانونی لین دین کے الزامات کو جھاڑنے میں زبردست طریقے سے کامیاب رہے، اور کامیاب کیوں نہ ہوں کہ آخر یہ وہی ملک ریاض تو ہیں جو ٹی وی کے ٹاک شوز میزبانوں کو اپنے زیرِ اثر لانے کے لیے ان کو رشوت دیتے پکڑے گئے تھے۔ جنہوں نے عدالت میں یہ تسلیم کیا تھا کہ ماضی میں جس چیف جسٹس صاحب کے زیرِ سماعت ان کے مقدمات تھے ان کے بیٹے کے غیر ملکی سفروں پر آنے والے بے دریغ اخراجات کو انہوں نے اپنی جیب سے ادا کیا۔ وہی ملک ریاض جنہوں نے حاضر و ریٹائرڈ فوجی اہلکاروں پر جبراً پیسے وصول کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔ جنہوں نے مختلف مواقعوں پر کھلے عام کہا تھا کہ پاکستان کے امیر ترین شخصیات میں سے ایک بننے کے اس سفر میں انہوں نے بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور دیگر ریاست کے ذمہ داران کو اپنے ’زیرِ اثر‘ لانے کے لیے پیسہ خرچ کیا۔
ملک ریاض کا 1990ء کی دہائی میں ایک ادنیٰ سے سرکاری ٹھیکیدار سے 2000ء کی دہائی کی ابتدا تک ایک رئیل اسٹیٹ ٹائیکون بننے تک کا سفر اکثر کسی کہانی جیسا محسوس ہوتا ہے۔
ان کی زندگی کے جو قصے اخبارات میں چھپا کرتے تھے اکثر ان میں ان کے سادہ پس منظر، خدمت خلق کے کاموں اور پاکستان کے لوگوں کی فلاح کی جانب ان کے عزم پر روشنی ڈالی گئی ہوتی تھی۔ مختلف شہروں میں بحریہ ٹاؤن کے نام سے رئیل اسٹیٹ منصوبے کی ابتدا سے ہی کچھ اس طرح تشہیر کی گئی کہ منصوبہ پاکستان کے متوسط طبقے کو ترقی یافتہ ملک کے متوسط طبقے کو حاصل سکھ اور سہولیات سے بڑھ کر نہ صحیح مگر ان کے مساوی سکھ اور سہولیات دینا چاہتا ہے۔