اب جاکر سائنسدانوں نے ایک نیا خیال پیش کیا ہے جس کی تصدیق ہوگئی تو دہائیوں سے دنیا بھر کو الجھن میں ڈالنے والے اس معمے کو حل کرنا ممکن ہوجائے گا۔
یہ آئس برگ 1988 میں ایک آسٹریلین مہم کے دوران اس وقت دریافت کیا گیا،اسی طرح واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہر ارضیات اسٹیفن وارن نے اس طرح کی ایک چٹان پر چڑھ کر اس کا قریب سے جائزہ لیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ان برفانی چٹانوں میں حیران کن چیز ان کی رنگت نہیں بلکہ ان کی شفافیت تھی کیونکہ اس میں بلبلے نہیں، عام آئس برگ قدرتی برفباری سے بنتے ہیں، یہ برف اپنے وزن سے جم کر ٹھوس ہوجاتی ہے، برفباری میں ہوا بلبلے کی شکل میں مقید ہوتی ہے ، تو گلیشیئر کی برف میں لاتعداد بلبلے ہوتے ہیں، جبکہ آئس برگ روشن اور دھندلے ہوتے ہیں۔
مگر ان انوکھے آئس برگز کی زمرد رنگ برف میں کوئی بلبلے نہیں، جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ کوئی عام گلیشیئر آئس نہیں۔
اسٹیفن وارن نے اس طرح کے 2 آئس برگز کی سطح کے نمونوں کا موازنہ کیا تو انہوں نے دریافت کیا کہ اس کی شفاف رنگت کی وجہ گلیشیئر آئس نہیں بلکہ سمندری ٹھوس برف ہے۔
یہ بھی دیکھیں : براعظم انٹار کٹیکا میں بہنے والی 'خونی آبشار' کا معمہ
انٹارکٹیکا میں اکثر آئس برگ سفید یا نیلے رنگ کے ہیں جبکہ کچھ میں دھاریاں بھی ہیں مگر سبز رنگ نایاب ہے اور آغاز میں اسٹیفن وارن کی ٹیم کا خیال تھا کہ اس کے نیچے موجود سمندری پانی میں پھنسے مردہ سمندری پودوں اور جانوروں کے ننھے ذرات کے نتیجے میں برف سبز ہوئی، مگر برف کے نمونے نے اس خیال کو غلط ثابت کیا۔
درحقیقت سبز اور نیلی سمندری برف میں اس طرح کے مواد کی یکساں مقدار دریافت کی گئی۔
چند سال بعد اسٹیفن وارن نے ایک اور خیال پیش کیا جس میں کہا گیا کہ ان آئس برگز کی رنگت کی وجہ اس علاقے میں آئرن کی سطح بہت زیادہ ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھیں : بانسری بجاتی انٹارکٹیکا کی چٹانیں
اس سے پہلے تسمانیہ یونیورسٹی کی ایک تحقیقی ٹیم نے دریافت کیا تھا کہ ان انوکھے آئس برگز والے خطے کی برفانی سطح میں آئرن کی مقدار 500 گنا زیادہ ہے اور اسی کو دیکھ کر یہ خیال پیش کیا گیا۔
اسٹیفن کا ماننا ہے کہ اس کی وجہ گلیشیئر سے تہہ میں موجود چٹانوں کا پس جانا ہے، جن کے آئرن سے بھرپور ذرات سمندر میں تیرتے ہوئے برف کی تہہ کے نیچے قید ہوگئے اور اس طرح برفانی برف بنی۔
سائنسدان اس خیال کو درست ثابت کرنے کے لیے ابھی مختلف آئس برگ کی سطح کے تجزیے کریں گے جس کے بعد اس کا فیصلہ ہوگا۔