رافیل معاہدے کی خفیہ دستاویزات 'چوری' ہوچکی ہیں، بھارتی حکومت
بھارت کا فرانس سے 'رافیل طیاروں' کا معاہدہ مودی سرکار کے گلے کی ہڈی بنتا جارہا ہے اور اب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی اس معاملے میں مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں کیونکہ حکومت نے عدالت میں موقف اختیار کیا ہے کہ معاہدے کی خفیہ دستاویزات 'چوری' ہو چکی ہیں۔
ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق رافیل طیاروں کے معاہدے کے خلاف چیف جسٹس رَنجَن گوگوئی کی سربراہی میں بھارتی سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔
اٹارنی جنرل کے کے وینوگوپال نے موقف اختیار کیا کہ رافیل معاہدے سے متعلق دستاویزات سامنے لانے والے 'آفیشل سیکریٹ ایکٹ' کے تحت مجرم ہیں اور وہ توہین عدالت کے بھی مرتکب ہوئے۔
بھارتی سپریم کورٹ نے 14 دسمبر کو بھارت کے فرانس کے ساتھ طیاروں کے اس معاہدے کے خلاف متعدد درخواستیں خارج کردی تھیں۔
فیصلے پر نظرثانی کے لیے سابق یونین وزرا یشوَنت سِنہا، ارون شورے اور ایڈووکیٹ پرشانت بھوشن نے عدالت عظمیٰ میں مشترکہ درخواست دائر کی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ حکومت نے معاملے سے متعلق اہم حقائق چھپائے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا رافیل معاہدہ مودی حکومت لے ڈوبے گا؟
درخواست کی سماعت کے دوران جب پرشانت بھوشن نے اخبار 'دی ہندو' کے صحافی این رام کے مضمون کا حوالہ دیا تو اٹارنی جنرل نے بتایا کہ اخبار کے مضامین 'چوری' ہوجانے والی دستاویزات پر مبنی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ معاہدے کی دستاویزات کی چوری کا مقدمہ تاحال درج نہیں کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ معاہدے سے متعلق اخبار میں پہلا مضمون 8 فروری کو جبکہ بدھ کو دوسرا مضمون شائع ہوا، تاکہ جن کا مقصد عدالتی کارروائی پر اثرانداز ہونا ہے جبکہ یہ توہین عدالت بھی ہے۔
کے کے وینوگوپال نے کہا کہ ان دستاویزات پر لکھے لفظ 'خفیہ' کو حذف کرکے انہیں شائع کیا لہٰذا نظرثانی اپیلوں کو مسترد کیا جائے۔
اس موقع پر بینچ نے سوال کیا کہ حکومت نے چورہ شدہ دستاویزات کی بازیابی کے لیے کیا اقدامات اٹھائے، جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ دستاویزات وزارت دفاع سے 'چوری' ہوئیں جن کی تحقیقات جاری ہے۔
عدالت نے کارروائی 14 مارچ تک ملتوی کردی۔
مزید پڑھیں: بھارتی عدالت نے رافیل طیارہ کیس میں مودی حکومت کو کلین چٹ دے دی
نریندر مودی پر مقدمہ چلانے کیلئے کافی ثبوت مل گئے، راہول گاندھی
دوسری جانب بھارتی کانگریس کے صدر راہول گاندھی کا کہنا ہے کہ 'رافیل طیاروں کے دھوکے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی پر مقدمہ چلانے کے لیے کافی ثبوت مل گئے ہیں۔'
سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ٹویٹ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'کرپشن کی کڑی مودی کے ساتھ شروع ہوئی اور ان ہی پر ختم ہوئی۔'
ان کا کہنا تھا کہ ' جرم ثابت کرنے والی رافیل طیاروں کی فائلیں چوری کروا کر مودی نے کرپشن چھپانے کی کوشش کی ہے۔'
معاہدے کا پس منظر
31 جنوری 2012 کو ہندوستانی وزارتِ دفاع نے اعلان کیا تھا کہ بھارت، فرانس سے 126 رافیل لڑاکا طیارے خریدے گا۔
اس معاہدے کے تحت فرانسیسی کمپنی ڈاسالٹ ایوی ایشن نے 18 لڑاکا طیارے مکمل تیار کرکے بھارت کو دینے تھے اور باقی 108 طیارے بھارت کے سرکاری ادارے 'ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ' اور ڈاسالٹ ایوی ایشن کے اشتراک سے ہندوستان میں تیار ہونے تھے۔
اس معاہدے میں یہ بھی طے ہوا کہ ڈاسالٹ ایوی ایشن یہ طیارے بنانے کی ٹیکنالوجی ہندوستان منتقل کرے گی۔ معاہدے کی شرائط اور طریقہ کار طے کرنے کے لیے مذاکرات شروع ہوئے۔
2014 آگیا لیکن معاملات طے نہ ہوسکے۔ یہاں تک سب کچھ اصولوں کے مطابق چل رہا تھا لیکن اس کے بعد جو ہوا اس نے مودی حکومت کو مشکل میں ڈال دیا۔
اس تمام مدت کے دوران طیاروں کا بجٹ دو گنا بڑھ جانے کے باعث مودی حکومت نے فیصلہ کیا کہ وہ 126 طیاروں کے بجائے مکمل تیار شدہ صرف 36 طیارے خریدے گی اور ہندوستانی سرکاری کمپنی کے ذریعے طیارے بنانے کا منصوبہ یہ کہہ کر ختم کردیا گیا کہ دفاعی ساز و سامان تیار کرنے والی سرکاری کمپنی ہندوستان ایروناٹکس جنگی طیارے بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔
کانگریس کے صدر راہول گاندھی نے معاہدے کو عوام کے سامنے پیش کرنے کا مطالبہ کیا جسے مودی حکومت نے ماننے سے انکار کردیا۔
مودی حکومت نے بہانہ بنایا کہ رافیل معاہدے میں ملکی راز افشا ہونے کا خدشہ ہے، لہٰذا قومی سلامتی کے پیش نظر بھارتی حکومت رافیل معاہدہ اسمبلی میں پیش نہیں کرسکتی۔
وزیرِاعظم نریندر مودی نے 36 طیاروں کی خریداری کے لیے 10 اپریل 2015 کو فرانس کا دورہ کیا۔ اس دورے میں انیل امبانی ان کے ساتھ تھے۔
اپوزیشن نے الزام لگایا کہ انیل امبانی نے نریندر مودی کے فرانس جانے سے 13 دن پہلے 'ریلائنس ڈیفنس' کے نام سے نئی کمپنی بنائی لیکن انیل امبانی اور ان کی کمپنی نے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیا۔
ستمبر 2018 میں فرانس کے سابق صدر فرینکوئس ہولاندے کے انکشافات کے بعد بھارت کی مرکزی اپوزیشن جماعت کانگریس کی جانب سے نریندر مودی پر طیاروں کے معاہدے میں سرکاری کمپنی کے بجائے نجی کمپنی کو ترجیح دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔
فرینکوئس ہولاندے نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ بھارت سے 2016 میں 9.4 ارب ڈالر کے 36 رافیل جنگی طیاروں کے معاہدے میں فرانسیسی مینوفیکچرر 'ڈاسولٹ' کو بھارتی پارٹنر کے انتخاب کے لیے کوئی آپشن نہیں دیا گیا تھا۔
دسمبر میں بھارت کی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے خلاف فرانس سے 36 رافیل طیاروں کی خرید و فروخت کے معاہدے میں مبینہ کرپشن کی تحقیقات کا مطالبہ مسترد کرتے ہوئے حکومت کو کلین چٹ دے دی تھی۔