نقطہ نظر

قصہ کمراٹ کی وادی کا

چاہے موسمِ گرما ہو،خزاں، بہار یا پھر جما دینے والی سردی،وادی کمراٹ جس روپ میں بھی ملی، حیران کیا اور فرحت بخش احساس دیا۔

قصہ کمراٹ کی وادی کا

عظمت اکبر

وادیوں کے حُسن، بلند شگاف پہاڑوں کی ہیبت ناکی، قدآور درختوں کے غرور، بہتے پانیوں کے نغموں میں، مَیں نے ہمیشہ اللہ کی تخلیق کردہ جنت کو تلاش کیا ہے۔

کچھ ایسے ہی حسین نظارے کمراٹ کی وادی میں دیکھے۔ جہاں آکر مجھ پر جیسے کوئی راز سا افشاں ہوا کہ سکون اور خوبصورتی کی اصل تعریف کیا ہے۔ مگر لفظوں کے سہارے اس تعریف کا بیان ہرگز ممکن نہیں۔

وادی کمراٹ اور دریائے پنجکوڑہ کا ایک منظر—تصویر فیصل رحمان

وادی کمراٹ کوہستان دیر اپر، پاکستان کی ان جنت نظیر وادیوں میں شامل ہے، جس کی خوبصورتی کا تذکرہ مجھے 2010ء میں دیر بالا کے چند مقامی دوستوں سے سننے کو ملا تھا۔ یہ اس مقام کا کمال اور جمال ہی کہیے کہ 2011ء سے اب تک اس وادی کو ہر موسم میں دیکھ چکا ہوں، چاہے موسمِ گرما ہو، خزاں، بہار یا پھر جما دینے والی سردی، وادی کمراٹ جس روپ میں بھی ملی، حیران کیا اور فرحت بخش احساس دیا۔

برفیلی وادی کمراٹ کا ایک خوبصورت منظر—تصویر عظمت اکبر

سردیوں میں وادی کمراٹ کی سیر زیادہ پرلطف ہوتی ہے—عظمت اکبر

گھنے جنگلات اور بلند و بالا سبزہ اوڑھے پہاڑوں کے درمیان واقع وادی کمراٹ کی سیر کے لیے 8 رکنی دوستوں کے ہمراہ جولائی 2011ء میں پروگرام بنایا گیا۔ ہم کمراٹ کی خوبصورتی سمیٹنے کے لیے پشاور سے علی الصبح روانہ ہوئے۔

وادی کمراٹ کی خوبصورتی سمیٹنے کے لیے پشاور سے ہمارا پہلا ٹؤر 2011ء میں ہوا—رانا محمد اکمل

سوزوکی کیری، جسے ہم پکے دیسی لوگ ڈبہ کہتے ہیں، اس میں 8 افراد پھنس پھنسا کر ہی ایڈجسٹ ہوئے تھے۔ کمراٹ تک پہنچنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے ’تیمر گرہ‘ پہنچنا تھا۔ مالاکنڈ پاس کراس کرکے بٹخیلہ کے خوبصورت بازار سے ہوتے ہوئے پل چوکی (چکدرہ) کے قریب ایک مقامی ریسٹورینٹ میں دوپہر کا کھانا تناول کرنے کے بعد ہم بابِ دیر سے دیر لوئر کی حدود میں داخل ہوکر چکدرہ بازار، گل آباد اور تالاش کے نظارے کرتے کرتے قریباً 3 بجے تیمر گرہ پہنچے۔

چکدرہ (پل چوکی) سے بابِ دیر پر موجود چیک پوسٹ سیکیورٹی کلیئرنس کے بعد تیمر گرہ کی طرف روانہ ہوئے—عظمت اکبر

شاہراہ چترال پر چکدرہ بازار، گل آباد اور تالاش سے ہوتے ہوئے ہم تیمرگرہ پہنچے—شہزاد اصغر مغل

یہاں سے ہم ایک کشادہ سڑک کے ذریعے 2 گھنٹے میں اپر دیر پہنچے۔ اپر دیر میں مقامی دوستوں سے ملاقات ہوئی اور ہم انہی کے پاس رات ٹھہرے۔ اگلے دن ہم فور بائے فور (4x4) گاڑی پر سوار ہوکر کمراٹ کے پہلے گاؤں ’تھل‘ کی طرف چل دیے۔ (آج کل تھل کے لیے موٹر کاریں اور چھوٹی گاڑیاں آسانی سے جاسکتی ہے۔)

تیمر گرہ سے اپر دیر تک شاہراہ چترال کے کشادہ سڑک پر 2 گھنٹے میں پہنچا جاسکتا ہے—عظمت اکبر

دیر بالا کے ضلع ہیڈ کوارٹر سے 500 میٹر قبل یادگار فرید خان شہید (باب کمراٹ) سے ایک شاہراہ شروع ہوتی ہے جو آپ کو اس حسین و دلکش وادی تک لے جاتی ہے۔ البتہ یہ بات یاد رکھیے گا کہ یہ سڑک آپ کو شرینگل تک تو بنی ہوئی ملے گی، جس کے بعد راستہ کچھ خراب ہے، لیکن اب وادی کمراٹ کے پہلے گاؤں تھل تک سڑک پر کام تیزی سے جاری ہے۔

دیر اپر سے 500 میٹر قبل یادگار فرید خان شہید (باب کمراٹ) سے شروع ہونے والی شاہراہ کے ذریعے شرینگل پہنچا جاسکتا ہے

قصبہ شرینگل نے بھی آنکھیں بچھا کر ہمارا استقبال کیا۔ یہاں پر اپر دیر، لوئر دیر اور چترال کے طلبہ کے لیے بنائی گئی ایک یونیورسٹی ’بے نظیر بھٹو شرینگل یونیورسٹی‘ بھی موجود ہے، جس کا فنِ تعمیر خاصا متاثر کن لگا۔

بے نظیر بھٹو شرینگل یونیورسٹی کا ایک منظر—عظمت اکبر

شرینگل ایک خوبصورت قصبہ ہونے کے ساتھ ساتھ دیر اپر کے بعد اس شاہراہ پر سب سے بڑا تجارتی مرکز بھی ہے۔ یہاں پر اب تو سیاحوں کی رہائش اور کھانے پینے کی تمام سہولیات موجود ہیں۔

کچھ دیر سستانے کے بعد ہم شرینگل سے پاتراک، بیاڑ، بریکوٹ سے ہوتے ہوئے انتہائی خستہ حال سڑک کی ناہمواری اور جگہ جگہ پر ہونے والی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے تقریباً 5 گھنٹے کے تھکادینے والے سفر کے بعد کلکوٹ پہنچے۔

یہاں پر ہمارے پہلے سے منتظر میزبان سابق ایم پی اے محمد علی کے چھوٹے بھائی نے بھرپور استقبال کیا۔ ان کے گھر دوپہر کا کھانا کھانے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل تھل کی طرف روانہ ہوئے۔ تقریباً ایک گھنٹے کے مزید سفر کے بعد ’دروازوں‘ نامی گاؤں آتا ہے، جہاں دریا پر بنا پل آپ کو اس راستے پر لے جاتا ہے جو ’کمراٹ‘ سے ’اتروڑ‘ اور ’بادوگئی پاس‘ سے ہوتے ہوئے کالام پہنچاتا ہے۔

خیال رہے کہ یہ سارا جیپ ٹریک ہے۔ گزشتہ دورِ حکومت میں اس روڈ کو مزید کشادہ کرنے کا کام شروع ہوا، جس کی وجہ سے اب یہ روڈ مقامی لوگوں اور سیاحوں کو وادی کمراٹ سے وادی کالام و سوات پہنچنے کا آسان زریعہ بن چکا ہے۔

کالام اور اتروڑ سے ہوتا ہوا یہ راستہ دشوار گزار انتہائی گھنے و بلند جنگلات سے گزرتا ہے۔ اس راستے سے کمراٹ کا سفر اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد سفر ہوتا ہے۔ اس سفر کے لیے چھوٹی جیپ اور چاک و چوبند ڈرائیور کا ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔

دیر اپر سے دروازوں کا فاصلہ 79 کلومیٹر بنتا ہے اور یہاں سے دوسرا راستہ دائیں جانب برف پوش پہاڑوں کے دامن میں ایک خوبصورت سرسبز میدان اور چراہ گاہ ’جہاز بانڈہ‘ کی طرف جندرئی گاؤں سے ہوکر جاتا ہے۔ دروازوں سے جندرئی گاوں کا فاصلہ 12 کلومیٹر بنتا ہے جو بذریعہ جیپ طے کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک عدد خوبصورت میوزیم بھی موجود ہے۔

راجہ تاج کا میوزیم

جس میں وادی کمراٹ کوہستان سے متعلقہ مختلف نوادرات اور تاریخی طور پر اہمیت کی حامل چیزیں موجود ہیں۔ جندرئی سے جہاز بانڈہ کے لیے 7.5 کلومیٹر پیدل جانا پڑتا ہے، جو تقریباً 6 سے 7 گھنٹے میں طے کیا جاسکتا ہے۔

جندری سے جہاز بانڈہ کو جانے والا ٹریک انتہائی خوبصورت اور گھنے جنگل پر مشتمل ہے

جہازبانڈہ کا وسیع و عریض سرسبز میدان سطح سمندر سے 8900 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ یہاں پر سیاحوں کے قیام و طعام کے لیے گرمی کے سیزن میں عارضی ہوٹلز اور ریسٹورینٹ بھی موجود ہوتے ہیں۔

جہاز بانڈہ ریسٹ ہاؤس، عارضی ہوٹل اور ریسٹورینٹ کا ایک منظر—رانا محمد اکمل

جہاز بانڈہ کے خوبصورت میدان اور اس کے درمیان بہتے پانی کے ایک طرف دیکھیں گے تو خوبصورت آبشار ہے اور دوسری طرف نظر دوڑائیں گے تو 15 سے زائد جھیلیں پائیں گے۔

جہاز بانڈہ کا خوبصورت میدان—عظمت اکبر

جہاز بانڈہ کے میدان کا ایک اور خوبصورت منظر—فیصل رحمان

جہاز بانڈہ کو اگر وادی کمراٹ کا دل کہا جائے تو غلط نہں ہوگا—رانا محمد اکمل

جہاز بانڈہ کی خوبصورت آبشار—عظمت اکبر

جہاز بانڈہ جھیل

ان جھیلوں میں سب سے خوبصورت جھیل سطح سمندر سے 11500 فٹ بلندی پر واقع کٹورا جھیل ہے۔ گلیشئیرز کے خوبصورت فیروزہ مائل رنگ کے پانی والی اس جھیل کے اردگرد پہاڑ وادی نیلم کی رتی گلی جھیل کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔

سطح سمندر سے 11500 فٹ بلندی پر واقع سب سے خوبصورت جھیل کٹورا جھیل—رانا محمد اکمل

جہاز بانڈہ سے کٹورا جھیل کا پیدل سفر اور ٹریکنگ 4.7 کلومیٹر پر مشتمل ہے جو 3 سے 4 گھنٹے میں مکمل ہوسکتا ہے۔ کٹورا جھیل کا ٹریک بھی فطرت کے نئے رنگوں سے آپ کا تعارف کرواتا ہے۔

کٹورا جھیل کا ٹریک بھی انتہائی خوبصورت ہے—عظمت اکبر

جہاز بانڈہ کا میدان اور اس کے درمیان بہتا پانی—عظمت اکبر

جہاز بانڈہ اور کٹورا جھیل کی مہم جوئی کرنے والے سیاح کم از کم 2 دن اس مہم کے لیے نکلیں۔

گزشتہ کئی سالوں سے سوشل میڈیا اور مئی 2016ء میں وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ کمراٹ کے بعد سے بڑی تعداد میں سیاح وادی کمراٹ اور جہاز بانڈہ کی خوبصورتی سے آگاہ ہوئے ہیں۔ گزشتہ 2 برسوں میں سیاحوں کی بڑی تعداد جہاز بانڈہ اور کٹورا جھیل سمیت کمراٹ کی سیر کے لیے آچکے ہے۔

جہاز بانڈہ پر ڈھلتی شام کا ایک منظر—رانا محمد اکمل

جہاز بانڈہ کے مقام پر رات اور چمکتے تارے—رانا محمد اکمل

یہاں تھل کی جامع مسجد دارالسلام، لکڑی کے تختوں سے بنائی گئی نہر، دریائے پنجکوڑہ، کالا چشمہ، دوجنگہ، درہ بدوگئی، چروٹ بانڈہ، جہاز بانڈہ اور آس پاس کی آبشاریں، جندرئی گاؤں، کٹورا جھیل اور برف پوش پہاڑوں کے نظارے آپ کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔

تھل کی تاریخی مسجد دارالسلام جو کہ سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتی ہے—رانا محمد اکمل

جامعہ مسجد دارالسلام تھل—عظمت اکبر

یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ گزشتہ صوبائی و مقامی حکومت نے وادی کمراٹ کی ترقی اور سڑکوں کی بہتری کے لیے بھرپور اقدامات کیے اور یہ کام اب بھی جاری ہے۔ چیئر لفٹ سے لے کر رہائش کی بہترین سہولیات اور تھل سے وادی کمراٹ کے آخر تک سڑک کی تعمیر 2019ء کے اہداف میں شامل ہیں۔

دروازوں سے تھل گاؤں کا فاصلہ تقریباً نصف گھنٹے کی مسافت پر مشتمل ہے۔ چونکہ اس وقت تھل اور کمراٹ میں کوئی ہوٹل موجود نہیں تھا سوائے محکمہ جنگلات کے ریسٹ ہاؤس کے، ہائے قسمت، اُس میں بھی دورے پر آئے ہوئے چند افسران ٹھہرے ہوئے تھے، اس لیے مقامی دوستوں نے وہاں کے مقامی ناظم کے ہجرے میں ہماری رہائش کا بندوبست کیا۔ شدید سردی اور تھکاوٹ کی وجہ سے ہم نے رات کے کھانے اور نماز کی ادائیگی کے فوراً بعد جلدی سونے پر ہی اکتفا کیا۔

صبح ساگ روٹی، لسی، مکھن اور دیسی گھی سے بھرپور ناشتے کے بعد ہم تھل بازار کے عین وسط میں تاریخی جامع مسجد دارالسلام دیکھنے گئے جو مکمل طور پر پائن کی لکڑی سے تعمیر کی گئی ہے۔

اب وقت تھا وادی کمراٹ کی طرف روانہ ہونے کا، تقریباً 5 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ہم وادی کمراٹ کے جنگل میں داخل ہوئے۔

مقامی لوگوں کے مطابق یہ تاریخی مسجد ایک صدی پرانی ہے لیکن 1953ء میں اسے دوبارہ تعمیر کروایا گیا تھا—عظمت اکبر

5 کلومیٹر سفر کرنے کے بعد ہم وادی کمراٹ کے خوبصورت جنگل میں داخل ہوئے—عظمت اکبر

کمراٹ کے جنگلات کا ایک خوبصورت منظر—عظمت اکبر

یہاں سے 20 کلومیٹر لمبی وادی کمراٹ شروع ہوجاتی ہے۔ راستے میں وہ جنگل آتے ہیں جو اس وادی سے میری ایک خاص قربت کا سبب بنے ہیں۔ اس جنگل کے آخر میں برف سے ڈھکے بلند وبالا پہاڑ نظر آتے ہیں، جن کو پار کرنے پر آپ چترال پہنچ سکتے ہیں۔

چلیے آپ کو پورا راستہ بتادیتے ہیں، تھل گاؤں کے بعد کمراٹ کے خوبصورت جنگل، خیموں اور عارضی ہوٹلز کے لیے مختص جگہ، آبشار، کالا پانی، دوجنگہ، کنڈل شاہی بانڈہ، چروٹ بانڈہ، ازگلو بانڈہ اور آخر میں شہزور بانڈہ سے ہوتے ہوئے آپ بلند پہاڑی سلسلے پہنچیں گے، جسے عبور کرنے پر آپ چترال میں داخل ہوجائیں گے۔

جنگلات سے گزرتے ہوئے—عظمت اکبر

تھل سے کمراٹ تک چونکہ لوکل ٹرانسپورٹ نہیں ہے اس لیے یہاں پر موجود فور بائی فور جیپ یا اپنی ٹرانسپورٹ کے ذریعے آگے کا سفر کیا جاسکتا ہے۔ لوکل جیپ ڈرائیورز یہاں پر 4 سے 5 ہزار روپے تک کرایہ طلب کرتے ہیں۔

تھل سے دو راستے نکلتے ہیں۔ ایک راستہ وادی کمراٹ کو جاتا ہے جہاں قدم قدم پر ہوش ربا فطری نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں، جبکہ دوسری طرف جہاز بانڈہ ’بانال‘ کا خوبصورت میدان ہے۔ (بانال کوہستانی زبان میں اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں پہاڑوں پر 5 سے 10 گھر ہوں اور گرمیوں میں لوگ اپنے مال مویشیوں کے ساتھ رہتے ہوں۔)

جہاز بانال پر چرتے مویشی—عظمت اکبر

گرمی کے آغاز سے یہاں کے مقامی لوگ اپنے مال مویشیوں کو تقریباً 6 مہینے تک ان چراگاہوں پر لے جاتے ہیں اور سردی شروع ہوتے ہی یہ تھل اور دیگر ذیلی علاقوں کی طرف ہجرت کرکے اپنے ساتھ مکھن دیسی گھی اور پنیر کی وافر مقدار میں لے آتے ہیں، جن سے یہ پھر سردیوں کے موسم میں اپنی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

مویشیوں کے ساتھ ساتھ گھوڑے بھی جہاز بنال (بانڈہ) میں چرتے ہوئے نظر آئیں گے—عظمت اکبر

وادی کمراٹ کو جاتا راستہ تھل سے دریا کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں پختہ اور بیشتر کچا ہے۔ جنگل میں کچھ دیر سفر کرکے دائیں جانب تھوڑی بلندی پر جب پانی کا شور سنائی دیا تو ہم نے وہاں تھوڑی دیر کے لیے رکنے کا سوچا۔

پھر ڈرائیور نے بھی بتایا کہ یہاں کمراٹ کی مشہور آبشار ہے۔ سو ہماری گاڑی نے ’سراج آبشار‘ نامی وادی کمراٹ کی اس مشہور آبشار کے پاس بریک لگایا۔ گاڑی سے اُتر کر ہم آبشار کی جانب بڑھ گئے۔ ابھی ہم پانچ منٹ ہی چلے تھے کہ بلندی پر ہمیں ایک پوری ندی تیزی سے نیچے گرتی ہوئی نظر آئی۔ آبشار بہت بلند اور وسیع تھی اور پانی کے گرنے کا شور جیپ ٹریک تک سنائی دے رہا تھا۔

تقریباً 10 منٹ کی مسافت کے بعد سامنے آبشار کا پورا وجود نظر آیا۔ کیا کمال کی بلند سفید آبشار تھی۔ اسکردو کی منٹوخہ اور سوات کی مشہور آبشار جوارگو سے مشابہت رکھنے والی یہ آبشارحسن میں اپنی مثال آپ ہے۔

اب ہم آبشار کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے اور آبشار کے باریک قطروں سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہو رہے تھے۔ اس آبشار کی بلندی تقریبا 100 سے 120 فٹ تک ہے۔ اس آبشار کو مقامی لوگوں نے ملکی سیاستدانوں میں سے جماعتِ اسلامی کے امیر سراج الحق کا پہلی مرتبہ اس آبشار کا دورہ کرنے پر ’سراج آبشار‘ کا نام دیا ہے۔ یہاں پر کافی دیر فوٹوگرافی کرنے کے بعد ہم اپنی اگلی منزل کی جانب روانہ ہوئے۔

اس آبشار کی بلندی تقریباً 100 سے 120 فٹ تک ہے—عظمت اکبر

راستے میں 2 بڑے جنگلی سلسلوں سے گزر کر ہمیں کالہ چشمہ اور دوجنگہ کی طرف جانا تھا۔

کمراٹ کے جنگلات جنگلی حیات سے بھی بھرپور ہیں۔ یہاں مارخور، ہرن اور چیتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔ بندر، جنگلی بھیڑ عام طور پر آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ پرندوں میں مرغ زریں کی بڑی تعداد ان جنگلوں میں نظر آئی گی جبکہ اس جنگل کے بیچ میں سے بہتے دریائے پنجکوڑہ میں ٹراوٹ فش کی وافر مقدار موجود ہے۔ سیاح یہاں پر کیمپنگ کے ساتھ پرندوں اور مچھلی کا شکار بھی کرتے ہیں۔

دریائے پنجکوڑہ میں ٹراؤٹ فش کی وافر مقدار موجود ہے—عظمت اکبر

کمراٹ کے پہلے جنگل کے اختتام پر ہم آگے ایک نہایت ہی وسیع میدان میں داخل ہوگئے۔ جس کی ایک جانب جیپ ٹریک تھا اور دوسری جانب دریا تھا۔ موسم انتہائی خوشگوار ہوچکا تھا۔ آسمان پر بادلوں نے ڈیرے ڈال دیے تھے اوردھوپ الوداع کہہ چکی تھی۔

ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کے جھونکے جیپ کی کھڑکیوں سے ٹکرا کر ہمیں تازہ دم کر رہی تھے۔ اب ہمارے سامنے ایک اور گھنا جنگل تھا اور جنگل کے پس منظر میں چترال کی بلند برفیلی چوٹیاں ہماری طرف جھانک رہی تھیں۔

جنگل کے اس دوسرے حصے اور عارضی رہائش گاہوں سے ہوتے ہوئے ہم ایک بار پھرایک وسیع مگر پتھریلے میدان میں داخل ہوگئے۔

اب ہماری جیپ آہستہ آہستہ بلندی پر چڑھ رہی تھی۔ پتھریلے میدان سے گزرتے ہوئے ہم ایک بار پھر گھنے جنگل میں داخل ہوگئے۔ اس وادی کی سڑک پر جنگل کا یہ آخری سلسلہ تھا جس کے بعد چترالی چوٹیاں آتی ہیں، جو اب کافی قریب نظر آنے لگی تھیں۔

اب جنگل ختم ہو رہا تھا۔ آگے نہایت ہی وسیع میدان تھا جس کی ایک جانب جیپ ٹریک تھا اور دوسری جانب دریا—عظمت اکبر

جنگل کے آخری سلسلے کے اختتام پر ہم انتہائی بلند اور بالکل عمودی پہاڑوں کی وادی میں داخل ہوگئے۔ اگرچہ وادی بالکل کھلی تھی لیکن بلند و بالا پہاڑوں کی ہیبت کافی دیر ہم پر طاری رہی۔ یہاں کے پہاڑ گلگت بلتستان کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔ تقریباً 10 کلومیٹر مزید سفر کرنے کے بعد ہم کالا چشمے کے قریب پہنچ چکے تھے، کالا چشمہ نہایت دلفریب مناظر سے بھرپور ایک نہایت خوبصورت مقام ہے۔ اِس چشمے کو مقامی زبان میں ’تورے اوبہ‘ کہا جاتا ہے۔

دو جنگہ، جہاں پر دو خوبصورت ندیاں مل کر دریائے پنجکوڑہ کی بنیاد رکھتی ہے—عظمت اکبر

کالا چشمے کا پانی بہت شفاف تھا۔ دریا میں موجود پتھر بھی صاف نظر آ رہے تھے، اس کی مخالف سمت میں دریا کے پار قالین نما ایک ذرخیز علاقہ نظر آ رہا تھا، وہی ہماری منزل تھا!

یہاں سے جیپ ٹریک مزید آگے دو جنگہ کے مقام تک جاتا ہے، جہاں پر دو ندیاں مل کر دریائے پنجکوڑہ کی بنیاد رکھتی ہیں۔ دوجنگہ سے آگے جیپ ٹریک ختم ہو جاتا ہے اور پھر وہاں سے ایک یا دو دن کے پیدل ٹریک کے ذریعے شہزور بانڈہ اور وادی کی بلند ترین جھیل ’شہزور جھیل‘ تک پہنچا جاسکتا ہے۔

دریا کے پار قالین نما ایک سبزہ زار علاقہ، جو ہماری منزل بھی تھا—عظمت اکبر

وادی کا حسن برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں—عظمت اکبر

کچھ دیر کی تصویر نگاری اور آرام کرنے کے بعد ہم نے تھل واپسی کی راہ لی۔ رات دیر تک ہم واپس تھل پہنچے جہاں پر ہمارے میزبان کھانے کے دسترخوان پر انتظار کر رہے تھے۔ کھانے کے بعد ہم جلدی سو گئے۔ کچھ یادیں اور کچھ تصاویر میں قید لمحات اپنے ساتھ لیے اگلے دن تھل سے پشاور کی طرف چل دیے۔

وادی کمراٹ کا سفر کرنے والے سیاحوں کے لیے کچھ ضروری معلومات اور گزارشات۔


عظمت اکبر سماجی کارکن اور ٹریپ ٹریولز پاکستان کے سی ای او ہیں۔ آپ کو سیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔


عظمت اکبر

عظمت اکبر سماجی کارکن ہیں۔ آپ کوسیاحت کا صرف شوق ہی نہیں بلکہ اس کے فروغ کے لیے پُرعزم بھی ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔