بھارت کا پاکستان میں 5 سے زائد مقامات پر حملے کا منصوبہ تھا، شاہ محمود
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا کہنا ہے کہ بھارت کا پاکستان کے 5 سے زائد مقامات پر حملہ کرنے کا منصوبہ تھا جس کی ہمیں پیشگی اطلاع ملی تھی۔
نجی ٹی وی چینل 'جیو نیوز' کے پروگرام 'کیپیٹل ٹاک' میں بات کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ 'ہمیں بھارت کی طرف سے 5 سے زائد مقامات پر حملے کا خدشہ تھا لیکن ہماری افواج کے الرٹ ہونے، پکی انٹیلی جنس معلومات ہونے اور سفارتی و ملٹری روابط نے بھارت کو حملے سے روکنے میں کردار ادا کیا۔'
ان کا کہنا تھا کہ 26 فروری کو بھارت نے پاکستان پر جارحیت کی پہلی کوشش اوکاڑہ اور بہاولپور کی طرف سے کی اور بھارتی جہازں کی فارمیشن نے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن، پاک فضائیہ نے انہیں پیچھے دھکیلا اور واپس جانے پر مجبور کیا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بھارت نے دوسری کوشش لاہور سیالکوٹ سرحد کی طرف سے کی، دوبارہ پاک فضائیہ کے طیاروں نے انہیں پیچھے دھکیلا، جبکہ تیسری بڑی فارمیشن نے مظفر آباد ایل او سی کی طرف سے پاکستان میں داخل ہونے کی کوشش کی جس میں کچھ جہاز واپس لوٹ گئے لیکن ایک جتھا پاکستان میں 4 سے 5 نوٹیکل مائیلز اندر آیا اور کارروائی کی اور جب ہمارے جہاز ان کے پیچھے گئے تو وہ بھی واپس لوٹ گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے پھر دوسرے روز جواب دیا اور بھارت کے 2 طیارے گرائے۔
یہ بھی پڑھیں: ایل او سی پر بھارت کی بلااشتعال فائرنگ کا سلسلہ جاری ہے، آئی ایس پی آر
انہوں نے کہا کہ 'اس صورتحال میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بہت متحرک کردار ادا کیا، انہوں نے اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا اور ان کی صلاحیتیں نظر بھی آئیں۔'
واضح رہے کہ میڈیا رپورٹس میں ذرائع کے ذریعے یہ بات سامنے آئی تھی کہ پاکستان کی جوابی کارروائی پر بھارت تلملا اٹھا اور اس نے پاکستان کے 6 سے 7 ایئر بیسز کو نشانہ بنانے کا منصوبہ بنایا لیکن پاکستان کے خفیہ ادارے نے اس منصوبے کا بروقت پتہ چلا لیا۔
اس کے بعد پاکستان نے دوست ممالک کے ذریعے بھارت کو پیغام بھیجا کہ اگر حملہ کیا تو ہمارا جواب تین گنا زیادہ طاقت ور ہوگا، تب جا کر بھارت اس منصوبے سے باز آیا۔
ذرائع کا کہنا تھا کہ بظاہر ایل او سی پر کشیدگی کم ہوگئی ہے لیکن پاکستان کے کچھ شہر بھارت کے ہدف پر ہیں، ہو سکتا ہے وہ اب بین الاقوامی سرحد عبور نہ کرے بلکہ کوئی دہشت گرد حملہ کرا سکتا ہے، بھارت کچھ شہروں میں دہشت گرد حملے کرنا چاہ رہا ہے جس کی پاکستان کی جانب سے دوست ممالک اور عالمی طاقتوں کو بھی اطلاع دے دی گئی ہے‘۔
ذرائع نے مزید کہا کہ بھارت کی اس جارحیت میں اسرائیل اس کا ساتھ دے رہا ہے۔
وزیر خارجہ نے کہا کہ عالمی برادری پاکستان اور بھارت کو معاملات بات چیت سے حل کرنے کو کہہ رہی ہے، کنٹرول لائن پر صورتحال بہتر ہورہی ہے اور امریکا، چین اور برطانیہ سمیت اہم طاقتیں الرٹ ہیں۔
مزید پڑھیں: بھارتی فوج پاکستان سے صرف 10 دن تک مقابلہ کرسکتی ہے، امریکی اخبار
ان کا کہنا تھا کہ بھارت میں مودی سرکار کے بیانیے کی قلعی کھل گئی ہے، وہ یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ انہوں نے جو پاکستان میں 300 ہلاکتوں کی بات کی تھی وہ درست نہیں ہے جبکہ یہ بھی تسلیم کیا گیا کہ ان کے دو طیارے گرے۔
انہوں نے کہا کہ آج بھارتی حکومت یہ تسلیم کر رہی ہے کہ وہ جو کہہ رہی تھی اس کے برعکس ہو رہا ہے، مثلاً نریندر مودی کی حکومت نے کہا کہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کے اجلاس میں سشما کو مدعو کرنا بہت بڑی کامیابی تھی، لیکن اجلاس میں کشمیر اور پاکستان کے اپنے دفاع کے حق سے متعلق قراردادیں منظور ہوئیں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مودی سرکار چاہ رہی تھی کہ میڈیا کے ایک حصے کو اپنے ساتھ ملا کر انتخابات میں کامیابی کے لیے ملک میں جنگ کی صورتحال پیدا کرے، لیکن آج دہلی میں امن کے لیے ریلیاں نکل رہی ہیں اور پاکستان مخالف بیانہ مودی سرکار کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔
بھارت اور اسرائیل کے آپس میں تعلقات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'دونوں ممالک کا ایک عرصے سے آپس میں تعاون چل رہا ہے اور دونوں میں انٹیلی جنس شیئرنگ بھی ہوتی ہے۔'
مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے وزیر خارجہ نے کہا کہ قربانی کشمیر دے رہا ہے اور جنازے کشمیری اٹھا رہے ہیں، لہٰذا مسئلہ کشمیر کے حل کی پیش رفت کشمیریوں کو آن بورڈ لیے بغیر نہیں ہوسکتی، جبکہ سابق صدر پرویز مشرف کے کشمیر فارمولے میں متاثرین شامل ہی نہیں تھے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ایئر چیف بالاکوٹ حملے میں ہلاکتوں سے متعلق واضح جواب نہ دے سکے
انہوں نے کہا کہ بھارت اگر یہ مسئلہ حل کرنے میں سنجیدہ ہے تو مقبوضہ کشمیر کی قیادت سے پہلے خود بات کرے۔
فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان پر قومی اتفاق رائے ہوا تھا لیکن پچھلی حکومت پلان پر ذمہ داری نبھاتی تو آج پاکستان 'گرے لسٹ' میں نہ ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ وقت آگیا ہے ہمیں وہ کرنا ہے جو پاکستان کے مفاد میں ہے اور یہ فیصلہ کن وقت ہے، جبکہ فیصلے سیاسی اتفاق رائے سے کرنا ہوں گے۔