پاکستان

'جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کر کے رکھ دیا'

قانون کے مطابق جھوٹی گواہی پر عمر قید ہوتی ہے، آج 4 مارچ 2019 سے سچ کا سفر شروع کر رہے ہیں، چیف جسٹس
|

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ نے جھوٹی گواہی پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے ہیں کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے، تمام گواہوں کو خبر ہو جائے، بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔

چیف جسٹس کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے جھوٹی گواہی دینے سے متعلق کیس کی سماعت کی۔

دوران سماعت سپریم کورٹ میں جھوٹے گواہ اے ایس آئی خضر حیات پیش ہوئے، انہیں عدالت نے ایک کیس میں جھوٹی گواہی دینے پر طلب کیا تھا۔

چیف جسٹس نے پولیس اہلکار کو مخاطب کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ وحدت کالونی لاہور میں کام کر رہے تھے اور نارووال میں قتل کے مقدمے کی گواہی دے دی۔

مزید پڑھیں: قانون کے مطابق جھوٹی گواہی پر عمر قید کی سزا دی جاتی ہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ حلف پر بیان دیا جبکہ حلف پر جھوٹا بیان دینا ہی غلط ہے، اگر انسانوں کا خوف نہیں تھا تو اللہ کا خوف کرنا چاہیے تھا۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے اللہ کا نام لے کر کہہ دیا کہ جھوٹ بولوں تو اللہ کا قہر نازل ہو، شاید اللہ کا قہر نازل ہونے کا وقت آگیا ہے، پولیس ریکارڈ کے مطابق آپ چھٹی پر تھے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ پولیس والے ہونے کے باوجود آپ نے جھوٹ بولا، ہائیکورٹ نے بھی کہا کہ یہ جھوٹا ہے، جس پر خضر حیات کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ عید کا دن تھا، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا عید کے دن جھوٹ بولنے کی اجازت ہوتی ہے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ تھانے میں تو کوئی ملنے والا بھی آئے تو ریکارڈ رکھا جاتا ہے، قانون کہتا ہے جھوٹی گواہی پر عمر قید ہوتی ہے، آج 4 مارچ 2019 سے سچ کا سفر شروع کر رہے ہیں، تمام گواہوں کو خبر ہو جائے، بیان کا کچھ حصہ جھوٹ ہوا تو سارا بیان مسترد ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ کا جھوٹے گواہوں کے خلاف کارروائی کا آغاز

چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیئے کہ آج سے جھوٹی گواہی کا خاتمہ کر رہے ہیں اور آغاز اس جھوٹے گواہ سے کر رہے ہیں، اسلام کے مطابق بھی گواہی کا کچھ حصہ جھوٹ ہو تو سارا بیان مسترد کیا جاتا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ 1964 میں لاہور ہائیکورٹ کے جج نے اس معاملے میں رعایت دی، جس کا مقصد یہ تھا کہ یہاں تو لوگ جھوٹ بولتے ہی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر انصاف مانگتے ہیں تو پھر سچ بولیں، سچ میں بڑی طاقت ہے، یا تو آپ اس روز ڈیوٹی پر موجود نہیں تھے، یا پھر آپ کی نگاہیں اتنی تیز تھیں کہ نارووال میں وقوعہ دیکھ لیا۔

انہوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ جھوٹے گواہوں نے نظام عدل کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، باپ، بھائی بن کر حلف پر جھوٹ بولتے ہیں۔

مزید پڑھیں: جھوٹی گواہی کا ایک اور مقدمہ، 12 سال بعد قتل کے ملزمان بری

جس کے بعد عدالت نے مقدمہ سیشن جج نارووال کو بھجوا دیا اور ہدایت کی کہ سیشن جج خضر حیات کے خلاف تعزیرات پاکستان کی دفعات کے تحت کارروائی کریں۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے جھوٹی گواہی کا نوٹس قتل کے ملزم محمد الیاس کی سزا کے خلاف اپیل پر لیتے ہوئے 13 فروری کو جھوٹے گواہ خضر حیات کو طلب کیا تھا جبکہ ملزم محمد الیاس کو عدم شواہد کی بنا پر بری کر دیا گیا تھا۔

یاد رہے کہ محمد الیاس پر 2007 میں ضلع ناروال کے علاقے میں آصف نامی شخص کو قتل کرنے کا الزام تھا اور ٹرائل کورٹ نے محمد الیاس کو سزائے موت سنائی تھی۔

اس سے قبل 20 فروری 2019 کو سپریم کورٹ نے جھوٹے گواہ محمد ارشد کے معاملے میں فیصل آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کو شکایت درج کرانے کی ہدایت کی تھی۔