'2018 میں 8 ہزار سے زائد مشتبہ مالی ٹرانزیکشنز ہوئیں'
پیرس میں قائم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی جانب سے حال ہی میں پاکستان کو دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے اور منی لانڈرنگ کے خدشات کم کرنے کے لیے دی گئی وارننگ نے ملک کے تمام اداروں کو آئندہ 2 ماہ میں انتہائی تیزی سے اور بہتر کارکردگی دکھانے پر مجبور کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 10 نکاتی ایکشن پلان کے 27 اہداف کو حاصل کرنا حکومت کی سب سے اول ترجیح بن چکا ہے کیونکہ ایف اے ٹی ایف اجلاس اب بھی جاری ہے، حکومت نے جماعت الدعوۃ اور فلاح انسانیت فاؤنڈیشن (ایف آئی ایف) پر پابندی کا اعلان کیا ہے تاکہ بھارت کے پاکستان پر یہ اور دیگر اس جیسے 6 اداروں، جن میں جیش محمد بھی شامل ہے، پر حمایت کے الزامات کا جواب دیا جاسکے۔
واضح رہے کہ رپورٹس کے مطابق جیش محمد پر بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے پلوامہ میں حال ہی میں ہونے والے حملے کا الزام لگایا جاتا ہے، اس حملے میں 44 بھارتی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔
اس رپورٹس پر بھارت کو پاکستان پر الزامات لگانے کا نیا موقع ملا اور اس نے پاکستان کو مالیاتی و سفارتکاری بنیادوں پر تنہا کرنے کی کوشش کی۔
مزید پڑھیں: بڑھتے ہوئے مالی خسارے پر اراکینِ اسمبلی کا اظہارِ تشویش
ایف اے ٹی ایف نے پلوامہ حملے پر خصوصی طور پر تشویش کا اظہار کیا تھا اور اس کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس جیسے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ دہشت گردی دنیا بھر میں معاشرے اور شہریوں کے لیے خطرہ ہے، جو بغیر دہشت گردوں تک رقم کی منتقلی کے بغیر نہیں ہوسکتی۔
اس وقت سے وزارتوں کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر ایف اے ٹی ایف کے عالمی تعاون نظر ثانی گروپ (آئی سی آر جی) کی نشاندہی کردہ کمزور امور کو مضبوط بنانے کے لیے مشاورت کی جارہی ہے.
واضح رہے کہ آئی سی آر جی نے پاکستان کی کارکردگی پر ایشیا پیسیفک جوائنٹ گروپ کی جانب سے جمع کرائی گئی رپورٹ کی تشخیص کی تھی۔
حال ہی میں ہونے والے ایک اجلاس میں حکام نے وزیر اعظم کو بتایا کہ معاملہ عالمی نظریے سے بہت سنگین ہے اور یہ پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ اپنے گھر کو ترتیب میں لے کر آئے۔
اس اجلاس میں تمام متعلقہ ایجنسیوں اور وزارت خزانہ کے ادارے شامل تھے۔
اجلاس میں بتایا گیا کہ 6 بینکوں پر جرمانہ عائد کیا گیا ہے اور 109 بینکرز سے جعلی اکاؤنٹس کھولنے کی تفتیش کی جارہی ہے۔
2018 میں فنانشل مانیٹرنگ یونٹ (ایف ایم یو) کی جانب سے جاری کی گئی مشتبہ ٹرانزیکشن کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ 2017 کے مقابلے میں 2018 میں مشتبہ ٹرانزیکشنز میں 57 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
رپورٹ کے مطابق 2017 میں 5 ہزار 548 مشتبہ ٹرانزیکشنز رپورٹ ہوئی تھیں جبکہ 2018 میں 8 ہزار 707 مشتبہ ٹرانزیکشنز رپورٹ ہوئیں اور رواں سال صرف جنوری اور فروری میں ہی ایک ہزار 136 مشتبہ ٹرانزیکشنز رپورٹ ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت خصوصی اقتصادی زونز کو بجلی، گیس کی فراہمی کے اخراجات اٹھائے گی
اسمگل کی گئی 20 ارب روپے سے زائد کی کرنسی اور جیولری کو جولائی 2018 سے 31 جولائی کے درمیان ضبط کیا گیا جو گزشتہ سال 12 ارب روپے تھے اور اس میں 66 فیصد اضافہ ظاہر ہوتا ہے۔
برطانیہ، قطر، متحدہ عرب امارات اور آسٹریلیا کے ساتھ مفاہمتی یادداشت پر دستخط کیے گئے ہیں اور پاکستان سافٹ ویئر کے ذریعے حکومت مختلف ایجنسیوں کے درمیان رابطہ بہتر کرنے کی کوشش کررہی ہے۔
اس طرح کا ڈیٹا مقامی افراد، ایف اے ٹی ایف اور اس کے نظر ثانی عمل میں شراکت دار کو متاثر کرسکتا ہے۔
پاکستان پر ڈیڈ لائن کے ساتھ 10 نکاتی ایکشن پلان کے تحت 27 انڈیکیٹرز پر نظر رکھی جارہی ہے۔
آئی سی آر جی، جس نے حال ہی اجلاس میں پاکستان کے معاملے پر نظر ثانی کی تھی، جنوری 2019 کے لیے طے کیے گئے اہداف پر کارکردگی سے خوش نہیں۔
ان اہداف میں انسداد منی لانڈرنگ اینڈ کومبیٹنگ فنانسنگ آف ٹیرارزم (اے ایم ایل/سی ایف ٹی) میں بہتری شامل تھی۔
انہوں نے 8 اشتہاری تنظیموں کو اے پی جی اور آئی سی آر جی کے خطرناک سمجھنے کے باوجود پاکستانی حکام کی جانب سے جواب نہ دینے پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔
ایف اے ٹی ایف نے زور دیا کہ پاکستان اپنا ایکشن پلان مکمل کرے بالخصوص وہ، جن کی ڈیڈلائن مئی 2019 کی ہے تاکہ حکمت عملی کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان نے دہشت گردی کی مالی معاونت کے خدشات کی تشخیص کو دوہرایا ہے تاہم داعش، القاعدہ، جماعت الدعوۃ، فلاح انسانیت فاؤنڈیشن، لشکر طیبہ، جیش محمد، حقانی نیٹ ورک اور طالبان سے منسلک افراد کی جانب سے دہشت گردی کی فنانسنگ کے خدشات کو پوری طرح سے بیان نہیں کیا گیا‘۔
پاکستان کو 10 نکاتی پلان کے ساتھ مطابقت اختیار کرنی ہے اور اس کے لیے پاکستان کو ظاہر کرنا ہوگا کہ مسلح تنظیموں کے مالیاتی خدشات کو پوری طرح سے جاننے کا مظاہرہ کرے، اسے خدشات کی نگرانی کرنی ہوگی اور ثابت کرنا ہوگا کہ اے ایم ایل/سی ایف ٹی خلاف ورزیوں پر پابندیاں اور روک تھام کی کارروائیاں عمل میں لائی گئی ہیں۔
انہیں یہ بھی بتانا ہوگا کہ متعلقہ حکام تعاون کر رہے ہیں اور غیر قانونی رقم اور قمیتی اشیا کی منتقلی کے خلاف نشاندہی کرنے کے بعد کارروائیاں کر رہے ہیں۔
پاکستان کو اپنی ایجنسیوں میں رابطوں کو بھی بڑھانا ہوگا جن میں صوبائی اور وفاقی ادارے شامل ہیں۔