کھیلوں میں تیزی اور چھوٹے سائز کا رجحان کیوں؟
1940ء کی دہائی میں دنیا کا پہلا کمپیوٹر ’الیکٹرونک انٹی گریٹر اینڈ کمپیوٹر‘، انیاک (Eniac)، متعارف کروایا گیا تھا۔ اس کا وزن 50 ٹن تھا اور یہ ایک ہزار 800 مربع فٹ کی جگہ گھیرتا تھا۔ مگر برسوں بعد پرسنل کمپیوٹر یا پی سیز آ گئے جو آپ کی میز پر ہی پورے آجاتے تھے، اس کے بعد لیپ ٹاپ، نوٹ بکس، ٹیبلٹس اور اسمارٹ فونز آئے جو انیاک کے مقابلے میں بہت ہی چھوٹے سائز ہونے کے باوجود بہت سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
تخلیقی صلاحیت اور سائنسی ترقی کی مدد سے جیسے جیسے برقی مصنوعات چھوٹی سے چھوٹی ہوتی گئیں، ویسے ویسے یہ بھی محسوس کیا گیا کہ چھوٹی چیزیں نہ صرف اٹھانے اور استعمال میں آسان ہیں بلکہ یہ خوبصورت اور دلکش بھی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب ہمارے پاس کتابیں بھی پاکٹ ایڈیشن میں چھپنے لگی ہیں۔
چھوٹے سائز کا اب یہ بخار کھیلوں کی دنیا کو بھی چڑھا ہوا ہے یا کم از کم دکھائی تو کچھ ایسا ہی دیتا ہے۔ متعدد بین الاقوامی اسپورٹس فیڈریشنز اب کھیلوں میں نئے قوانین شامل کرنے ساتھ نئے فارمٹس یا چھوٹے ورژن متعارف کروا رہی ہیں۔ اس حوالے سے مصروف زندگیوں اور محدود وقت دونوں کو دوش دیا جاسکتا ہے۔
کرکٹ
کرکٹ کے کھیل کو ٹیسٹ کرکٹ سے ون ڈے انٹرنیشنل اور پھر ٹی 20 تک لے جانے والی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) اب کرکٹ کے تازہ ترین ورژن کو اولمپکس میں شامل کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے.
امارات کرکٹ بورڈ اور انگلینڈ اور ویلز کرکٹ بورڈ کی سرپرستی میں آئی سی سی سے منظور شدہ ٹی 10 لیگ کھیلی بھی جا چکی ہے، اب یہ بورڈز اگلے سال دی ہنڈریڈ مقابلہ بھی متعارف کرنے جا رہے ہیں۔
یعنی کھیل کی ایک اننگ 100 گیندوں پر مشتمل ہوگی اور 10 اوورز میں 10 بال ہوں گے، اس کا مقصد شائقین کے لیے کھیل کو مزید دلچسپ بنانا ہے۔
دنیا کا پہلا ٹیسٹ میچ 1877ء میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے درمیان کھیلا گیا تھا، جبکہ 94 برس یعنی 1971ء میں سب سے پہلا ایک روزہ میچ کھیلنے کا اعزاز بھی انہی دو ٹیموں کو حاصل ہے۔ 2005ء میں پہلی بار کھیلے جانے والے بین الاقوامی ٹی20 میچ میں ایک بار پھر آسٹریلیا تو تھا لیکن مخالف ٹیم نیوزی لینڈ تھی۔
آئی سی سی وقت کے ساتھ ساتھ کرکٹ کھیلنے کے انداز میں تبدیلیاں کرتی رہی ہے۔
ایک روزہ میچ میں پہلے 60 اوورز کی اننگ ہوتی تھی لیکن اسے گھٹا کر 50 اوورز کر دیا گیا۔ ایک روزہ میچ میں چند بار فیلڈنگ پابندیوں کے قوانین میں تبدیلی کی گئی، جیسے بلے باز کو فائدہ پہنچانے کے لیے پاور پلیز متعارف کروائے گئے جس کے تحت 30 یارڈ کے دائرے کے باہر محدود فیلڈرز کو ہی کھڑا کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔
سپرسب کا تصور بھی کچھ عرصے کے لیے کھیل میں شامل رہا جس کے تحت ٹاس کے وقت دونوں ٹیموں کو اپنے 11 کھلاڑیوں میں سے کوئی ایک کھلاڑی دوسرے کھلاڑی سے تبدیل کرنے کی اجازت ہوتی۔ تاہم کھلاڑیوں، تبصرہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کہنا تھا کہ اس طرح کبھی کبھار ٹاس جیتنے والی ٹیم کو ناجائز فائدہ پہنچے گا۔
محدود اوورز کے فارمیٹ میں موسمی حالات کے باعث اوورز نہ کھیل پانے کی صورتحال سے نمٹنے کے لیے 1992ء کے ورلڈ کپ میں ایک شماریاتی طریقہ کار ڈک ورتھ لوئس میتھڈ (ڈی ایل ایس) متعارف کروایا گیا۔
اس میتھڈ سے دوسری اننگ میں بیٹنگ کرنے والی ٹیم کے لیے نئے ہدف کا تعین کرنے کے حساب کتاب میں مدد ملی۔ جتنا زیادہ یہ میتھڈ مددگار محسوس ہوتا ہے اتنا ہی یہ کھلاڑیوں اور تماشائیوں کی مایوسی کا سبب بھی بنا، خاص طور پر اس مقابلے میں جس میں یہ میتھڈ متعارف کروایا گیا تھا۔ 1992ء کے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جنوبی افریقہ کو 13 گیندوں پر 22 رنز درکار تھے لیکن بارش کے باعث کھیل رک جانے کے بعد نیا ہدف ایک بال پر 22 رنز ہوگیا۔ ڈی ایل ایس کے نام سے نئی تبدیلی کے ساتھ اس کا ایک نیا ورژن حال ہی میں متعارف کروایا گیا ہے۔
آئی سی سی نے ڈسیشن ریویو سسٹم (ڈی آر ایس) سب سے پہلے ٹیسٹ کرکٹ میں متعارف کروایا اور اب کرکٹ کے تمام فارمیٹس میں اس پر عمل ہو رہا ہے۔