نقطہ نظر

رمضان، متیرہ اور عامر لیاقت

ہر چینل نے اپنی بساط کے مطابق اپنے عامر لیاقت کا انتخاب کیا ہے، حرکتیں اور کام سب کا ایک جیسا ہے

رمضان کی آمد کے ساتھ ہی کھجور بازار میں اور عامر لیاقت ٹی وی پر نمودار ہوجاتے ہیں۔ پہلے عامر لیاقت صرف ایک چینل پر محدود تھے لیکن اب آپ ہر چینل، چاہے وہ انٹرٹینمنٹ ہو یا نیوز، مختلف اقسام میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ہر چینل نے اپنی بساط کے مطابق اپنے عامر لیاقت کا انتخاب کیا ہے، حرکتیں اور کام سب کا ایک جیسا ہے۔

ایک چینل کے میزبان تو اتنے عامرلیاقت ہیں کہ وہ بات چیت، ہاتھوں کے چلانے، ہنسنے حتیٰ کہ مسکرانے تک میں عامر لیاقت جیسے ہیں۔ یہ جو عامر لیاقت صاحب کی کاربن کاپیاں ہیں ان حضرات اور (خواتین) کا تعلق سماج کے مختلف حصوں سے ہے۔

مثال کے طور پر کچھ حضرات جو ماضی کے بڑے گویے تھے اب مولوی بن بیٹھے ہیں اور اپنی خوبصورت آواز کو شیطانی کام کے بجائے رحمانی کام میں صرف کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان حضرات کے پورے ملک میں عامر لیاقت صاحب کی طرح کرتے کی شاپس ہیں جہاں نت نئے فیشن کے دیدہ زیب رنگ برنگے کرتے نہایت مہنگے داموں دستیاب ہیں۔ عام دکاندار جو ایک کرتا ایک ہزار روپے میں بیچتا ہے یہ دس ہزار میں بیچ کر نہایت جائز اور حلال منافع کماتے ہیں۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ حضرات کبھی کوئی حدیث اور آیت ناجائز منافع کے بارے میں عوام کو نہیں سناتے۔

ان میں سے کچھ خواتین میزبانوں کا تعلق شوبز سے بھی ہے۔ رمضان کے مقدس مہینے میں انہیں سر پر دوپٹہ ڈالے نعت رسول مقبول پر جھومتے اور بےتحاشہ آنسو بہاتا دیکھ کر دل جذبہ ایمانی سے سرشار ہوجاتا ہے۔ لیکن انہی میں سے کچھ خواتین کو افطار کے بعد رومانوی کردار ادا کرتے دیکھہ کر طبعیت اور سرشار ہوجاتی ہے۔

پچھلے سال تو ایک چینل کا جب کوئی بس نہ چلا تو انہوں نے وینا ملک کو انڈیا سے دبئی بلا کر پروگرام کر ڈالا لیکن عوام کے غم و غصے کو دیکھتے ہوئے وہ پروگرام آن ائیر نہ کیا جاسکا۔ چلیں وینا ملک تو پھر بھی آنسو بہا بہا کر توبہ تایب کر رہی تھیں، ایک چینل پر تو پاکستان کی سب سے کم کپڑے پہننے والی ماڈل اور ہوسٹ متیرہ لبھا لبھا کر مذہبی پروگرام کرتی دکھائی دیں۔

رمضان نشریات کے میزبان جب مہمانوں میں انعامات کی بارش کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو حاتم طائی سے کم نہیں سمجھتے۔ لگتا ہے کہ وہ یہ انعامات اپنے گھر سے لا کر عوام میں تقسیم کر رہے ہیں۔ پروگرام کے دوران ناظرین کی فون کالز بھی لی جاتی ہیں اور ان سے سوالات پوچھہ کر انہیں بھی انعامات دئیے جاتے ہیں۔۔۔ لہذا اب جب علماء کے درمیان کوئی نہایت سنجیدہ گفتگو ہو رہی ہوتی ہے تو کوئی محترمہ فون کرکے بجائے اس بحث سے متعلق سوال کرنے کے وہ میزبان سے اپنی پسند کے ڈیزائنر کی لان کی فرمائش کر دیتی ہیں یا پھر انہیں اپنے بھائی یا شوہر کے لئے موٹرسائیکل چائیے ہوتی ہے۔

جس طرح سے ہم نے سیاست، علم اور ثقافت کو ایک مذاق بنا دیا ہے تو پھر مذہب کس طرح بچ سکتا ہے۔ رمضان المبارک کے مہینے میں یہ ٹی وی چینلز مذہب کو ایک مذاق بنا کر بیچنا شروع ہوجاتے ہیں۔

کچھہ لوگ شاید میری بات سے اختلاف کریں گے اور رمضان کے پروگرام کو علمی، روحانی اور سبق آموز قرار دیں لیکن ان پروگرامز کے جو اثرات عوام پر پڑتے ہیں، نظر بھی تو آنے چائیں۔

رہا معاشرہ تو وہ جوں کا توں بد عنوان ہے۔ ان مذہبی پروگراموں کو دیکھنے کے باوجود لوگ جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتے، ذخیرہ اندوزی کرنے سے باز نہیں آتے، ناجائز منافع کمانے سے باز نہیں آتے، ایک دوسرے کا خون بہانے سے باز نہیں آتے۔

چند سالوں پہلے عامر لیاقت نے ایک چینل پر عالم آن لائن نام کا ایک پروگرام شروع کیا تھا جس میں مختلف مسالک کے علماء دین کو بلا کر علمی مسائل پر گفتگو کی جاتی تھی۔ پروگرام کا مقصد یہ تھا کہ مختلف مکاتب فکر کے درمیان اختلافات ختم کر کے اتفاق رائے پیدا کیا جاسکے۔ لیکن اب وہ عالم آن لائن پورے دن پر محیط نشریات پر پھیل چکا ہے، اس کی روح مردہ ہوچکی ہے۔ اب مقصد صرف ریٹنگ ہے، دوسرے کو نیچا دکھانا ہے اور زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانا ہے۔


خرم عباس
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔