پاکستان

’آئی ایس آئی کے سابق چیف ای سی ایل سے نام نکلوانے کیلئے وزارت داخلہ سے رجوع کریں‘

احتساب عدالت نے لیفٹننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کی ایگزیٹ کنٹرول لسٹ سے نام نکالنے کی درخواست نمٹا دی۔

اسلام آباد: احتساب عدالت نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سابق ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) لیفٹیننٹ جنرل (ر) جاوید اشرف قاضی کی ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نام نکالنے کی درخواست نمٹا دی۔

عدالت کی جانب سے جاوید اشرف قاضی کو کہا گیا کہ وہ اس معاملے کو وزارت داخلہ کے سامنے اٹھائیں۔

گزشتہ برس اپریل میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے رائل پام گالف کلب اسکینڈل کیس سے متعلق جاوید اشرف قاضی اور دیگر کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا تھا۔

جاوید اشرف قاضی، جو وفاقی وزیر برائے ریلوے کے طور پر بھی فرائض انجام دے چکے ہیں، ان کے علاوہ اس ریفرنس میں دیگر ملزمان میں سابق سیکریٹری اور چیئرمین ریلویز بورڈ، لیفٹیننٹ جنرل (ر) سعید الزماں، میجر جنرل (ر) حامد حسن بٹ، بریگیڈیئر (ر) اختر علی بیگ، اقبال صمد خان، خورشید احمد خان، عبدالغفار، رمضان شیخ، پرویز قریشی، رائل گالف کلب کے اسپانسر اور دیگر 5 افسران شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: ریلوے گالف کلب اسکینڈل: تین سابق جرنیلوں کے نام ای سی ایل میں شامل

ان سب پر الزام ہے کہ یہ لاہور میں ریلویز گالف کلب کی لیز کو غیر قانونی طور پر دینے میں مبینہ طور پر ملوث تھے۔

عدالت میں دوران سماعت جاوید اشرف قاضی کے وکیل نے دلائل دیے کہ ان کے موکل کے اہل خانہ تھائی لینڈ میں رہتے ہیں اور ان کے موکل ہر سال وہاں جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ریفرنس ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور اس کیس میں بطور ملزم جاوید اشرف قاضی روزانہ کی بنیاد پر احتساب عدالت میں سماعت میں پیش ہورہے ہیں۔

وکیل کے مطابق ای سی ایل میں نام شامل ہونے کی وجہ سے جاوید قاضی اپنے اہل خانہ سے نہیں مل سکتے جبکہ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ اس فہرست سے نام نکالنے کے باوجود ان کے موکل باقاعدہ طور پر عدالت میں پیش ہوتے رہیں گے۔

بعد ازاں عدالت کے جج محمد بشیر نے دلائل سننے کے بعد اس معاملے کو نمٹا دیا اور جاوید قاضی سے کہا کہ وہ کسی بھی ریلیف کے لیے وزارت داخلہ سے رجوع کریں۔

واضح رہے کہ نیب کی تحقیقات کے مطابق 2001 میں پاکستان ریلوے نے لاہور میں نہر کنارے اپنے گالف کلب کی اراضی 33 سالہ لیز کے لیے پیش کش کی تھی، جس کے لیے متعدد کمپنیوں نے بولیاں جمع کروائیں تھی، جس میں نجی کمپنی میکس کورپس بھی شامل تھی، تاہم بولی کے عمل کے دوران لیز کے دورانیے کو غیر قانونی طور پر 33 سے بڑھا کر 49 سال کردیا گیا۔

اس کے علاوہ پیش کش کی گئی کہ زمین کے رقبے کو بھی غیر قانونی طور پر ریلوے آفیسرز کالونی گرا کر 103 سے 140 ایکڑ کردیا گیا، لہٰذا پاکستان ریلوے کی زمین کا قیمتی ٹکرا غیر شفاف طریقے سے غیر قانونی طور پر لیز ہوا، جس کا مقصد غیر قانونی طریقے سے لیز رکھنے والے اور ایک نجی کمپنی مین لینڈ حسنین پاکستان لمیٹڈ کے مالک کو فائدہ پہنچانا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے محکمہ ریلوے کو اراضی کی فروخت سے روک دیا

نیب کے مطابق تحقیقات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ملزمان نے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے 2001 میں تجارتی مقاصد کے لیے مین لینڈ حسنین پاکستان لمیٹڈ کو ریلوے گالف کلب کی 49 سالہ لیز اور 140 ایکڑ زمین غیر قانونی طور پر دے کر مبینہ طور پر کرپشن کی، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو تقریباً 2 ارب 20 کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔

چاروں سابق فوجی افسران کے خلاف ریفرنس اسلام آباد ہائیکورٹ کی گزشتہ ماہ دی گئی اس آبزرویشن کے بعد دائر کیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ سابق فوجی افسران فوج کے احتسابی عمل کے پیچھے نہیں چھپ سکتے۔

حیران کن طور پر 2012 میں اسی کیس میں نیب کی جانب سے فوجی حکام کو بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا گیا تھا لیکن ان کے خلاف کسی قسم کی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی تھی۔


یہ خبر 02 مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی