دنیا

بنگلہ دیش کا مزید روہنگیا مہاجرین کو لینے سے انکار

یہ بحران ‘بد سے بدتر’ ہوچکا ہے اور اس لیے سلامتی کونسل اس معاملے پر فیصلہ کن کارروائی کرے، بنگلہ دیشی سیکریٹری خارجہ

بنگلہ دیش نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے کہا ہے کہ وہ میانمار سے آنے والے مزید مہاجرین کو پناہ دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ شاہد الحق نے لاکھوں روہنگیا مہاجرین کے بحران پر ہونے والے سلامتی کونسل کے اجلاس میں کہا کہ یہ بحران ‘بد سے بدتر’ ہوچکا ہے اور اس لیے سلامتی کونسل اس معاملے پر فیصلہ کن کارروائی کرے۔

شاہد الحق کا کہنا تھا کہ ‘میں معذرت کے ساتھ سلامتی کونسل کو آگاہ کروں گا کہ بنگلہ دیش اب میانمار سے آنے والے مزید افراد کو کچھ دینے کی حالت میں نہیں ہے’۔

خیال رہے کہ بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں 7 لاکھ 40 ہزار سے زائد روہنگیا مسلمان موجود ہیں جو 2017 میں میانمار کی شمالی ریاست رخائن میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے تشدد اور قتل و غارت کے بعد وہاں پہنچے تھے۔

مزید پڑھیں: پہلے روہنگیا خاندان کی میانمار واپسی ہی مشکوک قرار

اقوام متحدہ نے رخائن میں ہوئے ان فسادات کو نسلی فسادات قرار دیتے ہوئے اس کا ذمہ دار ریاست کو قرار دیا تھا۔

عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے دباؤ کے بعد میانمار اور بنگلہ دیش کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا تھا کہ چند مہاجرین کو واپس لے لیا جائے گا، لیکن اقوام متحدہ کی جانب سے روہنگیا مسلمانوں کی واپسی پر ان کی سلامتی کو یقینی بنانے پر زور دیا گیا تھا۔

بنگلہ دیش کے سیکریٹری خارجہ نے کہا کہ ‘کیا بنگلہ دیش پڑوسی ملک میں اقلیتی آبادی پر ہونے والے ظلم و ستم کی قیمت ہمدردانہ عمل کے ذریعے دے رہا ہے’۔

اقوام متحدہ کے نمائندے کرسٹین شرینر نے پانچ دوروں کے بعد اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ مہاجرین کی واپسی کا عمل انتہائی سست رفتاری سے جاری ہے اور خبردار کیا تھا کہ میانمار میں اگلے سال ہونے والے انتخابات کے باعث یہ تنازع مزید گھمبیر ہوسکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ ٹیم کی روہنگیا پناہ گزینوں سے ملاقات

اقوام متحدہ کی جانب سے میانمار کے لیے منتخب کیے گئے سوئٹزرلینڈ کے نمائندے کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے اداروں کو روہنگیا مسلمانوں کی واپسی کی تیاریوں کے لیے ناکافی رسائی دی گئی ہے۔

دوسری جانب میانمار نے تحمل کی اپیل کی ہے اور میانمار کے سفیر ہو ڈو سوین نے اصرار کیا کہ ان کی حکومت اقدامات کررہی ہے اور اس حوالے سے تحمل کی اپیل کرتی ہے۔

میانمار سے قریبی تعلقات رکھنے والے ملک چین کے نائب سفیر ووہیتاؤ کا کہنا تھا کہ ‘یہ دو ممالک کا معاملہ ہے جس کا کوئی حل وہ خود نکال لیں’۔

میانمار کی رہنما آنگ سانگ سوچی بھی 2020 کے انتخابات سے قبل اس حوالے سے اپنی پوزیشن بھی واضح کرنے کی کوشش کررہی ہیں اور اس تنازع کے حل کی خواہاں ہیں۔

روہنگیا مہاجرین کی ملائیشیا آمد

ملائیشیا کی پولیس کے مطابق میانمار سے ہجرت کرنے والے 34 روہنگیا مسلمانوں کا گروپ ایک سال کا طویل سفر طے کرکے سمندر کے ذریعے ملائیشیا کے ساحلی شہر میں پہنچا ہے۔

مزید پڑھیں: مہاجرین کی واپسی میں تاخیر کی ذمہ داری بنگلہ دیش پر ہوگی، میانمار

بنگلہ دیش میں 2017 سے پہنچنے والے 7 لاکھ 40 ہزار روہنگیا مسلمانوں کے بعد مہاجرین کا یہ گروپ رواں برس پہلی مرتبہ ملائیشیا پہنچ گیا ہے، اس سے قبل 2018 میں سمندر کے راستے کئی روہنگیا مہاجرین ملائیشیا پہنچے تھے۔

مقامی پولیس افسر نہار جلال الدین کا کہنا تھا کہ روہنگیا مہاجرین شمالی ریاست پیرلیس کے دور دراز علاقے میں پہنچے تھے۔

روہنگیا مہاجرین کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ‘وہ تھکے ہوئے کمزور اور بھوک سے نڈھال تھے، مہاجرین میں مرد، خواتین اور بچے شامل ہیں تاہم اب وہ امیگریشن حکام کی تحویل میں ہیں’۔

انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ مہاجرین کو پڑوسی ملک تھائی لینڈ سے انسانی اسمگلروں نے اندھیرے کی آڑ میں سمندری راستوں سے ملائیشیا پہنچایا ہے۔

مقامی اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قریبی علاقے کے رہائشیوں کو یہ روہنگیا مہاجرین ساحل پر کیچڑ میں ملے تھے جو مدد کے لیے چیخ پکار کر رہے تھے۔