نقطہ نظر

امن کے لیے سفارت کاری وقت کی اہم ترین ضرورت!

امن کا دارومدار بھارت پر ہے، جب تک بھارت نہیں کہتا کہ وہ جنگ یا تناؤ نہیں چاہتا تب تک مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان مسلسل دشمنی اور عداوت کے ماحول کے بعد بدھ کو کچھ خاص عسکری ایکشن دیکھنے کو نہیں ملا، لیکن ہاں، کل کا دن وزیرِاعظم عمران خان کی تقریر کا دن تھا جنہوں نے بھارتی پائلٹ کی رہائی کا اعلان کیا جو آج بھارت روانہ ہوجائیں گے۔

ممکن ہے کہ وزیرِاعظم کی جانب سے یہ اچانک فیصلہ اس بحران کی کیفیت سے نکالنے میں مدد دے دے، لیکن اصل دار و مدار بھارت پر ہے، کیونکہ جب تک وہ واضح اور بغیر اگر مگر کیے یہ نہیں کہتا کہ وہ جنگ یا تناؤ نہیں چاہتا، تب تک مسئلہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

وزیرِاعظم کی تقریر، جسے امن کی جانب اٹھایا گیا ٹھیک قدم بھی کہا جاسکتا ہے، اس کے فوری بعد بھارتی مسلح افواج کے نمائندوں نے بھی پریس کانفرنس کا انعقاد کیا، جو شاید ٹھیک سمت کی طرف اشارہ ہے کیونکہ اس میں کوئی نئی دھمکی نہیں تھی، بلکہ گزشتہ پورے ہفتے میں کیا کچھ ہوا، اس کی وضاحت کی گئی۔

مزید پڑھیے: امن کی طرف واپس لوٹنے کی ضرورت ہے

لیکن تنازعے کے خطرے سے بچنے اور صورتحال مزید خراب ہونے سے پہلے پہلے واپسی کا راستہ لینے کے لیے بھارتی بیانیے اور اس کے عمل کو روکنا ہوگا اور اس مقصد کے لیے بین الاقوامی برادری کی جانب سے ابھی مزید ہنگامی سفارتکاری کی ضروری پڑے گی۔

وزیرِاعظم کی جانب سے بھارتی پائلٹ کی رہائی کے فیصلے کے اعلان کو پوری پارلیمنٹ نے سراہا۔ کشیدگی کے اس پورے ماحول میں قومی قیادت نے متفقہ طور پر یہ موقف اختیار کیے رکھا کہ پاکستان کسی بھی جارحیت کے نتیجے میں اپنے دفاع کا بھرپور حق رکھتا ہے، لیکن پاکستان قطعی طور پر بھارت کے ساتھ جنگ کا خواہاں نہیں۔

وزیرِاعظم عمران خان نے پائلٹ کی رہائی کو ’خیر سگالی کے جذبے‘ کے ساتھ جوڑا لہٰذا نئی دہلی کو چاہیے کہ اس جنگی ماحول میں اس خیر سگالی کے پیغام کو وہ بھارت میں بات چیت کے دروازے کھولنے کے لیے استعمال کرے۔

ارادوں اور خیالات کے میدان میں جنگ سے متعلق بہت بات ہوئی، کامیابی اور فخر کے جذبات سے باہر نکل کر دیکھا جائے تو بھارتی پائلٹ کی گرفتاری یہ پیغام دیتی ہے کہ اس کا سب سے بڑا نقصان خود انسان کو ہی ہوتا ہے۔

سرحد کے دونوں ہی اطراف اہلکار اور عام شہری ہی اس جنگ کا نشانہ بنتے ہیں، لہٰذا قانون بنانے والوں اور جنگ لڑنے والوں دونوں کو اس حقیقت سے آنکھ نہیں چرانی چاہیے۔

اسی طرح میڈیا کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے، خصوصاً بھارتی میڈیا کو کہ دونوں ممالک کے درمیان جاری اس جنگی ماحول کو بڑھانے کے لیے اپنے غیر ذمہ دارانہ کردار سے پیچھے ہٹے۔

جب بھارتی جہازوں نے پاکستان میں کارروائی کی تو فوری طور پر بھارتی میڈیا نے غیر معمولی طور پر اس پورے واقعے پر خوشی کا اظہار کیا، دوسری طرف جب پاکستان نے دفاعی کارروائی کی تو پاکستانی میڈیا کے ایک حصے نے بھی بھارتی جہازوں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتار پر کچھ ایسا ہی کردار ادا کیا

اہم بات یہ ہے کہ دونوں ہی ممالک کے میڈیا نے بات چیت پر زور دینے کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا، اگر انہوں نے کچھ کیا ہے تو پھر سرکار کی جانب سے غیر تصدیق شدہ خبروں کے پرچار کا کام کیا ہے۔

مزید پڑھیے: جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں؟

اس پورے بحران سے نکلنے کے لیے بامعنی اور پائیدار مذاکرات اسی وقت شروع ہوسکتے ہیں جب دونوں ممالک کی قیادت، میڈیا اور معاشرے کے بااثر افراد صرف یہ نہ سوچیں کہ دوسرے ملک کی کیا ضروریات ہیں، بلکہ ان اقدامات اور تجزیوں پر بھی غور کریں جو ان کے اپنے لیے بھی ضروری ہیں۔

لہٰذا یہ امید کی جاتی ہے کہ اس جنگی ماحول سے ہم نکلنے میں جلد کامیاب ہوں گے اور ان تمام معاملات پر سنجیدگی سے غور کریں گے جو دونوں ممالک کے لیے ضروری ہے۔


یہ اداریہ یکم مارچ 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ویب ڈیسک