نقطہ نظر

چھوٹے میاں سبحان اللہ! پی ایس ایل کے نئے اسٹارز

ہر سال ایسےکھلاڑی قومی ٹیم کا حصہ بنتےہیں جن کی کارکردگی دل خوش کردیتی ہے۔ امید ہےاس بار بھی ہمیں ایسےکئی کھلاڑی ملیں گے

کراچی اور لاہور وطنِ عزیز کے سب سے بڑے اور خوبصورت ترین شہر ہیں اور دنیا کے ہر ملک کے بڑے شہروں کی طرح مختلف لحاظ سے ان دونوں کے درمیان بھی کھینچا تانی ہوتی رہتی ہے۔ چاہے وہ کھانوں کے سلسلے میں ہو یا کھیل کے میدانوں میں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) میں کراچی-لاہور مقابلہ سب سے زیادہ دیکھا جاتا ہے۔

اس سال پی ایس ایل سیزن 4 میں دونوں روایتی حریف 2 مرتبہ ٹکرا چکے ہیں، پہلے لاہور نے کامیابی حاصل کی اور اب لیگ کے نازک ترین مرحلے پر جب تمام ہی ٹیموں کو فتوحات کی سخت ضرورت ہے، کراچی نے میدان مار لیا ہے۔

اس میچ کے مردِ میدان تھے افتخار احمد، ذرا غیر معروف نام ہے لیکن کافی عرصے سے ڈومیسٹک سرکٹ کھیل رہے ہیں بلکہ 2015ء اور 2016ء میں پاکستان کے لیے چند ٹیسٹ، ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی میچز بھی کھیل چکے ہیں۔ اپنے اسی تجربے کو افتخار نے لاہور کے خلاف خوب استعمال کیا اور آل راؤنڈ کارکردگی کے ذریعے کنگز کو اہم کامیابی دلائی۔ پہلے باؤلنگ کرتے ہوئے 4 رنز دے کر 2 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور پھر بیٹنگ میں اس وقت ناقابلِ شکست 33 رنز بنائے کہ جب کراچی کو ان رنز کی سخت ضرورت تھی۔

افتخار احمد جیسے کئی کم معروف اور نئے نام ہیں جو ہمیں پی ایس ایل 4 میں نظر آ رہے ہیں۔ ہر سال چند ایسے کھلاڑی قومی کرکٹ کے دامن میں گرتے ہیں کہ جن کی کارکردگی دل خوش کر دیتی ہے۔ شاداب خان سے محمد نواز اور فخر زمان سے شاہین آفریدی تک، ایسے باصلاحیت کھلاڑیوں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے پی ایس ایل سے نکل کر دنیا بھر میں نام کمایا۔

میچ میں بہترین کھلاڑی قرار پانے والے افتخار احمد—تصویر پاکستان سپر لیگ ٹوئٹر

اس سیزن میں بھی کئی ایسے کھلاڑی سامنے آئے ہیں جن سے امید ہے کہ وہ مستقبل میں بہت آگے جائیں گے۔ ان کھلاڑیوں میں پہلا نام ہے حارث رؤف کا۔ لاہور قلندرز گو کہ کارکردگی کے لحاظ سے ہمیشہ پیچھے رہتے ہیں لیکن جہاں بات ہو نئے کھلاڑیوں کی تلاش اور ان کو ایک بڑا پلیٹ فارم دینے کی تو پی ایس ایل کی کوئی ٹیم قلندرز کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ نئے ٹیلنٹ کی تلاش، تراش و خراش کے بعد انہیں آئندہ کے لیے تیار کرنا ایک بہت بڑا کام ہے جو قلندرز کے کوچ عاقب جاوید بخوبی انجام دے رہے ہیں۔

لاہور نے ماضی کی اس روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی نئی دریافت حارث رؤف کو پیش کیا اور یقین جانیں انہیں دیکھ کر نہ صرف شائقین بلکہ ماہرینِ کرکٹ بھی حیران ہیں۔ سیزن کے آغاز سے پہلے ہی سب کی نظریں حارث رؤف پر تھیں کیونکہ مشہور تھا کہ یہ نوجوان باؤلر 150 کلومیٹر فی گھنٹے کی رفتار سے گیند کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پھر سب نے دیکھا کہ حارث اب تک 11 کھلاڑیوں کو اپنا نشانہ بنا چکے ہیں یعنی حسن علی کے بعد اب تک سب سے زیادہ وکٹیں لینے والے باؤلر ہیں۔ کراچی کے خلاف میچ میں جس طرح انہوں نے کولن انگرام جیسے باؤلر کو آؤٹ کیا وہ ان کی صلاحیتوں کا کُھلا اظہار تھا۔ تسلسل کے ساتھ 140 کلومیٹر فی گھنٹے سے زیادہ کی گیندیں پھینکنے والے حارث میں ایک جارح مزاج فاسٹ باؤلر کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں، رفتار بھی اور جوش و جذبہ بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پی ایس ایل 4 میں سہیل تنویر، محمد عامر، جنید خان اور وہاب ریاض جیسے باؤلرز سے بھی آگے ہیں۔

کراچی کنگز کے صرف 19 سال کے عمر خان بھی خوب کھیل رہے ہیں۔ اسپن باؤلر نے اب تک 7 وکٹیں حاصل کی جن میں بہت بڑے بڑے شکار موجود ہیں جیسے اے بی ڈی ولیئرز، شین واٹسن، لیوک رونکی اور کوری اینڈرسن۔ اینڈرسن کو تو عمر نے مسلسل 3 گیندیں ضائع کروا کے آؤٹ کیا لیکن شہرت کا نقطۂ آغاز تھا ڈی ولیئرز کی وکٹ۔

عمر کا تعلق قبائلی علاقوں کے ایک پسماندہ گھرانے سے ہے لیکن وہ سابق ٹیسٹ کرکٹر ندیم خان کی نظروں میں آگئے اور یوں کچھ ماہ قبل ہی اپنے فرسٹ کلاس کیریئر کا عمدہ آغاز کیا۔ وہ 21ویں کھلاڑی کے طور پر کراچی کنگز کے اسکواڈ میں منتخب کیے گئے اور اب مستقل حصہ بنے نظر آ رہے ہیں۔

کچھ ایسی ہی کارکردگی اسلام آباد یونائیٹڈ سے کھیلنے والے محمد موسیٰ خان کی ہے۔ صرف 18 سال کے موسیٰ بہترین رفتار کے ساتھ نپی تلی اور ہدف پر نشانہ لگانے والی باؤلنگ کر رہے ہیں۔ پشاور زلمی جیسی مضبوط بیٹنگ لائن کے خلاف ایک مقابلے میں موسیٰ نے جس طرح کامران اکمل، ڈیوڈ ملان اور ڈیرن سیمی کی وکٹیں حاصل کیں، وہ حیران کُن تھا۔ اس مقابلے میں انہوں نے صرف 25 رنز دے کر 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا اور بلاشبہ میچ کے بہترین کھلاڑی تھے، بس آخر میں محمد سمیع کی ہیٹ ٹرک نے ان کی کارکردگی کو گہنا دیا۔ موسیٰ جاری سیزن میں اب تک 5 وکٹیں لے چکے ہیں اور امید ہے کہ مزید بھی حاصل کریں گے۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمیشہ کی طرح ہمیں بیٹنگ میں کوئی ایسا دمکتا ستارہ نظر نہیں آیا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے احسن علی نے کچھ متاثر ضرور کیا ہے جنہوں نے قلندرز کے خلاف دونوں مقابلوں میں خوب بیٹنگ کی ہے۔ پہلے مقابلے میں جہاں شین واٹسن صفر پر آؤٹ ہوئے اور رائلی روسو اور عمر اکمل بھی نہ ٹک پائے وہاں احسن نے 29 گیندوں پر 40 رنز اسکور کیے اور کوئٹہ کی کامیابی کی بنیاد ڈالی۔ دوسرے میچ میں کوئٹہ تو بُری طرح شکست کھا بیٹھا لیکن ان کی طرف سے سب سے بڑی اننگز احسن نے ہی کھیلی کہ جنہوں نے 33 رنز بنائے۔

پاکستان سپر لیگ میں اہم ترین مقابلے اور اگلے مرحلے تک رسائی کی جنگ شدت اختیار کررہی ہے۔ اس مرحلے پر ایسے نوجوانوں کی کارکردگی فیصلہ کن کردار ادا کرسکتی ہے۔ دیکھتے ہیں اس مرتبہ نئے کھلاڑیوں میں کون سب سے نمایاں ہوتا ہے۔

فہد کیہر

فہد کیہر کرکٹ کے فین ہیں اور مشہور کرکٹ ویب سائٹ کرک نامہ کے بانی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر fkehar@ کے نام سے لکھتے ہیں۔

ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔