پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم نے حکومت کی پالیسی بیان کی— فوٹو: ڈان نیوز
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اس وقت ہمارے لیے سعودی عرب کے ولی عہد کا دورہ انتہائی اہم تھا جس میں انہوں نے سرمایہ کاری کرنی تھی، کون سا ملک اتنے اہم ایونٹ کے موقع پر خود دہشت گردی کروا کر اثر انداز ہونے کی کوشش کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ سمجھ نہیں آرہی کہ اس سے ہمیں کیا ملنا تھا، اس لیے ہم نے بھارت سے کہا کہ کسی بھی قسم کی ایکشن ایبل انٹیلی جنس دیں گے تو ہم کارروائی کریں گے، وزیراعظم کے مطابق ہم نے بھارت سے کہا کہ آپ ہمیں ثبوت دیں ہم کارروائی کریں گے لیکن بدقسمتی ثبوت دینے کے بجائے ہندوستان نے جنگ کا ماحول بنایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے گزشتہ روز نریندر مودی کو کال کرنے کی کوشش کی کیونکہ ہم یہ واضح کرنا چاہتے تھے کہ ہم کسی قسم کی کشیدگی نہیں چاہتے، یہ کوشش اس لیے نہیں کی کہ ہمیں کوئی خوف یا گھبراہٹ ہے، ہماری مسلح افواج نے دہشت گردی کے خلاف 12 سال سخت جنگ لڑی ہے اور جس تجربے سے یہ گزرے ہیں یہ جنگ کے لیے پوری طرح تیار ہیں۔'
عمران خان کا کہنا تھا کہ 'لیکن ہمارے یا بھارت کے مفاد میں نہیں ہے کہ بات آگے بڑھے، لہٰذا ہم نے کل پیغام پہنچایا جبکہ وزیر خارجہ نے بھی دیگر عالمی رہنماؤں اور وزرائے خارجہ سے بات کی اور پوری کوشش ہے کہ کشیدگی کم ہو۔'
انہوں نے کہا کہ پاکستان نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کررہا ہے جس کے تحت ہم پاکستان میں مسلح ملیشیا کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ کسی اور ملک کے خلاف ہماری سرزمین استعمال کرے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا کی جانب سے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے پر انہیں خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ 'ہمارے میڈیا نے جنگ کی تباہی، متاثرین اور دکھ درد دیکھے ہیں'۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان امن چاہتا ہے یہ جو کشیدگی ہے یہ نہ ہی پاکستان کے فائدے میں ہے اور نہ ہی بھارت کے فائدے میں۔
وزیراعظم نے کہا کہ امن کے قیام کی کوشش کو ہماری کمزوری نہیں سمجھا جائے، یہ کمزوری نہیں ہے، پاکستان کی تاریخ میں جب ہم پیچھے دیکھتے ہیں تو بہادر شاہ ظفر تھا اور ٹیپو سلطان، بہادر شاہ ظفر نے موت کے بجائے غلامی کو چنا تھا جبکہ ٹیپو سلطان نے غلامی کو نہیں چنا تھا، اس قوم کا ہیرو ٹیپو سلطان ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک غیرت مند قوم آزادی کے لیے لڑے گی تو وہ غلامی کا نہیں سوچے گی۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ نریندر مودی کو پیغام دینا چاہتا ہوں کہ کسی کو اس جانب نہ دھکیلیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ پاکستان کی فوج اس وقت کتنی تیاری کے ساتھ کھڑی ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ کل رات پاکستان پر میزائل حملے کا خطرہ تھا جس کا جواب دینے کے لیے ہماری فوج تیار تھی۔
وزیراعظم نے کہا کہ میں آج اس پلیٹ فارم سے ہندوستان کو کہ رہا ہوں کہ اس معاملے کو اس سے آگے نہ لے کرجائیں کیونکہ جو بھی آپ کریں گے پاکستان اس کا جواب دینے کے لیے مجبور ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ ہم دونوں ممالک کے پاس جیسے ہتھیار ہیں تو انہیں ایسا سوچنا بھی نہیں چاہیے، میں امید کرتا ہوں کہ عالمی برادری بھی اس میں اپنا کردار ادا کرے گی تاکہ صورتحال زیادہ کشیدہ نہ ہو۔
وزیراعظم نے کہا کہ بھارت نے کسی ثبوت کے بغیر ایک دم پاکستان پر انگلی اٹھائی کیا ان سے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا کہ کشمیر میں 19 سالہ نوجوان کو کس نے مجبور کیا کہ بھارتی فوج کو نقصان پہنچانے کے لیے خود کو بم سے اڑاتا، کس انتہا پر وہ پہنچ گیا ہوگا اور دیگر نوجوان جن میں موت کا خوف ختم ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کے ساتھ کشمیر کے معاملے پر مباحثے کی ضرورت ہے کیونکہ کشمیر میں اسی طرح ظلم چلتا رہا تو مجھے یہ ڈر ہے کہ وہاں رد عمل ہوگا جس کے نتیجے میں اس طرح کی کوئی دہشت گردی ہوگی تو اس کے بعد کیا ہر وقت پاکستان پر انگلی اٹھے گی اور کہ اسی طرح ثبوت دیے بغیر کہا جائے گا کہ اس پر کارروائی کریں۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بھارت میں اس دہشت گردی کے حملے کو اسلامی انتہا پسندی قرار دیا جارہا ہے لیکن میں دنیا کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ نائن الیون سے پہلے سب سے زیادہ خودکش حملے تامل ٹائیگرز نے کیے جو ہندو تھے تو یہ مذہب کی وجہ سے نہیں کررہے تھے، کیونکہ مایوسی اور ذلت کے بعد انسان ایسا اقدام اٹھاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ کشمیر میں کیے جانے والے مظالم اور بھارتی حکومت وہاں جو جنگی جنون پیدا کررہی ہے بھارت کی اکثریت اس سے متفق نہیں۔
بھارتی طیاروں کو مار گرانے سے 65 کی جنگ کی یاد تازہ ہوگئی، شہباز شریف
وزیراعظم کی تقریر کے بعد قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ کا اہم موڑ ہے، اس موقع پر ہمیں اجتماعی اتحاد اور صبر سے کام لینا ہوگا۔
ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے 1971 کے بعد مسلسل سرحدی خلاف ورزیاں کیں جو عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے جبکہ حال ہی میں پاک فضائیہ کی جانب سے بھارتی لڑاکا طیاروں کو مار گرانے سے 1965 کی جنگ کی یاد تازہ ہوگئی۔
انہوں نے کہا کہ پاک فوج کی جانب سے جس بہادری کا مظاہرہ کیا گیا، اس سے ثابت ہوگیا کہ ہمارے جوان وطن کے چپے چپے کی حفاظت کریں گے اور کسی بھی طرح کی قربانی سے گریز نہیں کریں گے۔
شہباز شریف کا کہنا تھا کہ اسکواڈ لیڈر حسن صدیقی قوم کے لیڈر ہیں، وہ اپنے کارنامے سے قوم کے تارے بن چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پلوامہ میں ہونے والے واقعے کی پاکستان نے مذمت کی اور ساتھ ہی کہا کہ نریندر مودی دہشت گرد ہیں، انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ گجرات ہزاروں مسلمانوں کو شہید کیا اور ان کے حکم پر مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ نریندر مودی آئندہ انتخابات کے لیے نمبرز حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی پہلی مرتبہ سامنے نہیں آئی، اس سے قبل بھی ایسے حالات رونما ہوچکے ہیں اور پہلے بھی دونوں ممالک 3 جنگیں لڑ چکے ہیں۔
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کی جانب سے جو مالی وسائل غربت کے خاتمے پر خرچ ہونے چاہیے تھے وہ جنگوں پر خرچ ہوئے، یہ جنگیں کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتیں، شکست خوردہ اور کامیاب ہونے والے کو آخر کار بات چیت کے لیے میزبان پر بیٹھنا پڑتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیر مسئلہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل نہیں ہوگا، تب تک خطے میں امن قائم نہیں ہوگا اور ہندوستان کو کشمیریوں کو ان کا حق دینا پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ جب تک کشمیر میں 20 ماہ کے بچے کی آنکھیں چھلنی کی جائیں گی، بوڑھے والدین کے جوان بچوں کو مارا جائے گا، تب تک کشمیر اور خطے میں امن قائم نہیں ہوگا جبکہ پلوامہ واقعے میں بھارت کی جانب سے کسی دہشت گرد تنظیم کے ملوث ہونے کا دعویٰ ڈھونگ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کے صدر نے کہا کہ پاکستان خود دہشت گردی اور بربریت کا شکار رہا ہے۔
پاکستان میں گزشتہ 2 دہائی سے جاری دہشت گردی کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں دہشت گردی میں 50 سے 70 ہزار افراد شہید ہوئے اور دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جہاں فوج، پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں، عوام، صنعت کاروں، ماؤں، بیٹوں اور بیٹیوں نے قربانیاں دیں۔
تحریر موقف او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو بھیجا ہے، شاہ محمود قریشی
بعد ازاں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے ایک اہم نقطے کی جانب توجہ دلائی ہے اور انہوں نے او آئی سی اجلاس کا حوالہ دیا ہے۔
وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ میں کہنا چاہتا ہوں کہ حکومت پاکستان نے اس پر جو اپنا موقف بیان دیا ہے اور تحریری موقف او آئی سی کے سیکریٹری جنرل کو بھیجا ہے اس خط کی کاپی میں آپ کی خدمت میں بھی پیش کردوں گا۔
اس سے قبل بھارت کی حالیہ جارحیت کے بعد پارلیمنٹ کے پہلے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم عمران خان، سینیٹ و قومی اسمبلی کے اراکین سمیت سول و عسکری قیادت نے شرکت کی۔
پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں پارلیمان کی جانب سے یک زبان ہو کر دنیا کو متحد اور پر امن ہونے کا پیغام دیا گیا۔
پارلیمان کے مشترکہ اجلاس کے لیے انتطامیہ کی جانب سے خصوصی انتظامات کیے گئے۔
وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اہم اجلاس ہوا۔
اجلاس میں کابینہ اراکین کی جانب سے بھارتی جارحیت کی مذمت کی گئی اور پاکستان کی مسلح افواج کو جوابی کارروائی کرنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔
کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نےکابینہ کو اعتماد میں لیا اور واضح کیا کہ پاکستان امن چاہتا ہے، جنگ نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ اپنے دفاع سے غافل نہیں ہے اور ہم نے اپنا دفاع کرکے دکھایا ہے۔
کابینہ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پاک-بھارت کشیدگی کے خاتمے کے لیے مختلف ممالک کے سفیروں سے روابط اور امن کے لیے پاکستان کی کوششوں سے متعلق بریفنگ دی۔
اجلاس میں وزیر دفاع پرویز خٹک نے پاکستان کی دفاعی صلاحیت اور لائن آف کنٹرول پر موجودہ صورتحال سے متعلق کابینہ کو آگاہ کیا۔
مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس
پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل رانا ثنا اللہ اور مرتضیٰ جاوید عباسی کی زیر صدارت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کمر میں تکلیف کے باعث اجلاس کی صدارت نہیں کرسکے بعدازاں وہ اجلاس میں شرکت کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس پہنچے۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ترجمان مسلم لیگ (ن) مریم اورنگزیب سمیت کھیل داس کوہستانی، برجیس طاہر اور دیگر ارکان اسمبلی نے شرکت کی۔
اجلاس میں پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے متعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکمت عملی طے کی گئی۔
ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں گزشتہ روز منعقد کیے گئے پارلیمانی لیڈرز کے اجلاس میں وزیراعظم کی شرکت نہ کرنے پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے اراکین کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کو کل کے اہم اجلاس میں لازمی شرکت کرنا چاہیے تھی۔
پاکستان پیپلزپارٹی کا پارلیمانی اجلاس
ذرائع کے مطابق پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف زرداری کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہوا۔
آصف زرداری نے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹ کو پارلیمنٹ ہاوس میں طلب کیا، انہوں نے تمام پارٹی ارکان کو مشترکہ اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کی ہدایت جاری کی تھی۔
ذرائع کے مطابق پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کی جانب سے مشترکہ اجلاس کے لیے حکمت عملی تیار کی جائے گی۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کے بعد رہنما پیپلز پارٹی خورشید شاہ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ آصف مشترکہ اجلاس 2 دن تک جاری رہے گا۔
خورشید شاہ نے کہا کہ شریک چیئرمین آصف زرداری مشترکہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے، انہوں نے مزید کہا کہ آصف زرداری آج غیر ملکی سفیروں سے اہم ملاقاتیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت اور خود مختاری صرف حکومت کی نہیں بلکہ ہماری بھی ذمہ داری ہے، انہوں نے مزید کہا کہ پارلیمانی جماعتوں کے لیڈرز بات کریں گے۔
خورشید شاہ نے کہا کہ گزشتہ روز پارلیمانی سربراہان کے اجلاس میں وزیراعظم کی جانب سے شرکت نہ کرنا افسوس ناک ہے۔
پاک بھارت کشیدگی
واضح رہے کہ 14 فروری کو بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے علاقے پلوامہ میں سینٹرل ریزرو پولیس فورس کی بس پر حملے میں 44 پیراملٹری اہلکار ہلاک ہوگئے تھے اور بھارت کی جانب سے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیا گیا تھا جبکہ پاکستان نے ان الزامات کی تردید کی تھی۔
26 فروری کو بھارت کی جانب سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان کی حدود میں در اندازی کرتے ہوئے دہشت گردوں کا مبینہ کیمپ کو تباہ کردیا۔
بھارت کی جانب سے آزاد کشمیر کے علاقے میں دراندازی کی کوشش کو پاک فضائیہ نے ناکام بناتے ہوئے اور بروقت ردعمل دیتے ہوئے دشمن کے طیاروں کو بھاگنے پر مجبور کیا تھا۔
بعد ازاں پاک فوج کے شعبہ تعلقاتِ عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے بتایا تھا کہ آزاد کشمیر کے علاقے مظفرآباد میں داخل ہونے کی کوشش کر کے بھارتی فضائیہ کے طیاروں نے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے بتایا تھا کہ بھارتی فضائیہ نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کی، جس پر پاک فضائیہ فوری طور پر حرکت میں آئی اور بھارتی طیارے واپس چلے گئے۔
بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان کی زیر صدارت قومی سلامتی کمیٹی کا ہنگامی اجلاس ہوا تھا، جس میں بھارتی دعووں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان نے واضح کیا تھا کہ مناسب وقت اور جگہ پر بھارتی مہم جوئی کا جواب دیا جائے گا۔
اس اہم اجلاس کے فوری بعد وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، وزیر دفاع پرویز خٹک، وزیر خزانہ اسد عمر نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس کی تھی، جس میں بھی شاہ محمود قریشی نے بھارتی عمل کو جارحانہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان اس کا جواب دے گا۔
بعد ازاں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے بھی ایک پریس کانفرنس کے دوران بھارت کو خبردار کیا تھا کہ اب وہ پاکستان کے جواب کا انتظار کرے جو انہیں حیران کردے گا، ہمارا ردِ عمل بہت مختلف ہوگا، اس کے لیے جگہ اور وقت کا تعین ہم خود کریں گے۔
میجر جنرل آصف غفور نے کہا تھا کہ بھارت نے دعویٰ کیا کہ اس کے طیارے 21 منٹ تک ایل او سی کی دوسری جانب پاکستان کی فضائی حدود میں دراندازی کرتے رہے جو جھوٹے دعوے ہیں۔
بعد ازاں گزشتہ روز پاک فضائیہ نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے والے بھارتی فورسز کے 2 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا تھا۔
پاک فوج نے ایک بھارتی پائلٹ کو گرفتار کیا تھا جبکہ دیگر ایک پائلٹ کی گرفتاری کے لیے علاقے میں سرچ آپریشن جاری ہے۔
واقعے کے بعد وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ جو میلی آنکھ سے دیکھے گا پاکستان اسے جواب دینے کا حق رکھتا ہے، کل بھی کہا تھا کہ پاکستان جواب ضرور دے گا۔