پاکستان

محکمہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے وسائل ہی نہیں

محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے پاس نہ وسائل ہیں نہ افرادی قوت اور نہ ہی صلاحیت کہ وہ جنگلی حیات میں پھیلنے والے امراض یا ایسی کسی تباہی کا مقابلہ کر سکے۔

محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے پاس نہ وسائل ہیں نہ افرادی قوت اور نہ ہی صلاحیت کہ وہ جنگلی حیات میں پھیلنے والے امراض یا ایسی کسی تباہی کا مقابلہ کر سکے۔ یہ بات مٹھی میں منعقدہ موروں کے تحفظ سے متعلق ایک مذاکرے میں سامنے آئی جس میں محکمہ کے چیف کنزرویٹو غلام حسین بھاگت نے سچی اور کھری کھری باتیں کیں۔

ان کے اعتراف اور انکشافات سے ان کی بے بسی عیاں تھی۔ان کی باتوں نے سامعین کو حیرت میں مبتلا کر دیا ،لیکن انہوں نے اپنی ملازمت کوخطرے میں ڈالتے ہوئے حقائق بیان کردیے۔ تعجب کی بات یہ بھی تھی کہ چند روز پہلے محکمہ کے وزیر نے میڈیا کی ان رپورٹس کی تردید کی تھی کہ تین سو نہیں صرف سولہ مور مرے ہیں۔

مذاکرے کا اہتمام فرینڈز آف انڈس نے دیگر غیر سرکاری تنظیموں کے تعان سے کیا تھا۔ جس میں ورلڈ وائلڈ لائف، آئی یو سی این اور دیگر تنظیموں کے نمائندوں، مقامی باشندوں، دانشوروں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ ایک سال قبل تھر میں اس نایاب اور خوبصورت پرندے مور کی اموات کے بعد مٹھی میں منعقد ہونے والا یہ پہلا پروگرام تھا جس میں عالمی اداروں سے تعلق رکھنے والے افراد نے بھی شرکت کی۔

محکمہ جنگلی حیات کے اعلیٰ افسر نے اعتراف کیا کہ رانی کھیت بیماری کی وجہ سے مور مرے ہیں۔ اور تعداد پچاس ہے یا تین سو اس سے ہٹ کے حقیقت یہ ہے نایاب پرندے مر رہے ہیں۔انہوں نے کہاکہ موروں میں بیماری مرغی فارم سے پھیلی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ان کا محکمہ کتنا چھوٹا ہے جس میں عملے کی کمی اور وسائل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس میں کل 834 ملازم ہیں جن میں سے 620 فیلڈ میں ہیں۔صوبے کے تئیس اضلاع میں صرف چھ گزیٹیڈ افسر ہیں۔تھرپارکر جیسے طویل ضلع میں جنگلی حیات کے تحفظ اور غیرقانونی طور شکار پر نظر رکھنے کے لیے پچیس سال پرانے ماڈل کی جیپ ہے جس کے لیے سالانہ پیٹرول کا بجٹ 2400 روپے ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ گیم وارڈن کو ڈیوٹی کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ کہتا ہے کہ مجھے تو وزیراعلیٰ نے مقرر کیا ہے آپ کون ہوتے ہیں مجھے کچھ کہنے  والے ۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے محکمے پاس نہ ڈاکٹر ہیں نہ ہی ادویات اور اس کے رقومات۔ بلکہ اس سے پہلے جو مینڈیٹ محکمے کے پاس ہے اس کے مطابق جنگلی حیات میں کسی بیماری کے پھیلنے کی صورت میں اقدامات کرنے کی بھی گنجائش نہیں ہے۔تاہم محکمے نے اپنی استعداد سے بڑھ کر کام کیا ہے۔انہوں نے مخیر حضرات اورغیر سرکاری تنظیموں سے اپیل کی کہ موروں کو بچانے کے لیے ویکسین کی خریداری میں محکمہ کا ہاتھ بٹائیں۔ ایک ویکسین کی قیمت بیس روپے ہے۔

انہوں نے بتایا کہ دو سال قبل جبکہ کھیرتھر نیشنل پارک میں جنگلی حیات میں بیماری پھوٹ پڑی تھی تب محکمہ لائیو اسٹاک کی مدد حاصل کی گئی تھی۔ اور موروں میں بیماری پھیلنے کے بعد تھر میں محکمہ پولٹری کی مدد حاصل کی گئی ہے۔ ان سے نہ صرف ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل عملے کی مدد لی گئی ہے بلکہ ادویات کے حوالے سے بھی مدد لی گئی ہے۔

جناب بھاگت سالہا سال سے اس محکمے وابستہ رہے ہیں۔ ان کے یہ انکشافات اور اعتراف میڈیا، غیر سرکاری تنظیموں اور جنگلی حیات کے دوستوں کی جانب سے فوری توجہ کا متقاضی ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کی مدد کی کی جائے۔

مذاکرے میں موروں کی اہمیت، ان کے مرنے کی وجوہات، تحفظ کے لیے فوری اور طویل مدت اقدامات پر مقررین نے روشنی ڈالی۔انہوں نے بتایا کہ مور سانپ کا دشمن سمجھا جاتا ہے۔ جس علاقے میں مور ہوتے ہیں وہاں سانپ کم ہوتے ہیں۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق تھر میں ہرسال تین ہزار افراد کو سانپ ڈستے ہیں۔ موروں کی آبادی میں کمی سے سانپ کی آبادفی بڑھ جائے گی، جس کا منفی اثر انسانی آبادی پر بھی پڑے گا۔

مقررین نے بتایا کہ موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے تھر میں روزگار کے وسائل اوراس کے ساتھ ساتھ پودے، گھاس اور جنگلی حیات پر بھی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسمی تبدیلیوں اور مسلسل قحط سالی یا دیر سے بارشیں ہونے کی وجہ سے کئی گھاس، ، پودے اور جنگلی حیات ناپید ہوگئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دراصل خوراک اور زندگی کا سائیکل ٹوٹ چکی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ناپید ہونے والے پودوں گھاس اور جنگلی حیات کے حوالے سے جامع سروے کیا جائے۔ مقررین کا خیال تھا کہ موروں میں بیماری کی وجہ ان کی خوراک کم ہونے یا اس میں تبدیلی رونما ہونا بھی ہو سکتی ہے۔ لہٰذا اس امر کا بھی جائزہ لینا چاہئے۔

مقررین نے تھر میں موروں کی بیماری اور اس کی وجہ سے اس پرندے کی اموات کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا اور مطالبہ کیا کہ محکمہ تحفظ جنگلی حیات کی استعداد بڑھائی جائے۔ قراردادیں بھی منظور کی گئیں جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ اسمبلی تحفظ جنگلی حیات کا نیا قانون منظور کرے جس کا مسودہ کئی سال سے التوا میں پڑا ہوا ہے۔