دنیا

جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں؟

تاریخ کا جائزہ لینے سے پتہ چلے گاکہ زیادہ تر جنگیں بادشاہوں، ریاستوں اور حکومتوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطرشروع ہوئیں

جنگیں کیوں لڑی جاتی ہیں؟

ساگر سہندڑو


اگر دنیا کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو اس میں اس قدر ہولناک جنگوں کی لرزہ خیز داستانیں مدفون نظر آئیں گی، جنہیں انسان آج تک بھلا نہیں پائے۔

جنگ اگرچہ انسانی فطرت کا حصہ نہیں سمجھی جاتی تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جنگوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا خود انسان قدیم ہے۔

دنیا کی تاریخ اور جنگوں کا تجزیہ کرنے سے ہمیں اندازہ ہوگا کہ آج تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں وہ معمولی باتوں سے ہی شروع ہوئیں۔

زیادہ تر جنگیں بادشاہوں، ریاستوں اور حکومتوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطر شروع ہوئیں جن سے لاکھوں انسان اپنے جیسے ہی دوسرے انسانوں کی وحشت کا نشانہ بنے۔

دنیا کی تاریخی جنگیں، انسانی کھوپڑیوں کے مینار، بھوک، افلاس اور تشدد سے بھری پڑی ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ ایسی جنگیں انسانی خود غرضی کی وجہ سے ہی ہوئیں جن کی لرزہ خیز داستانیں آج بھی لوگوں کے رونگٹے کھڑے کر دیتی ہیں۔

اگر دنیا کی قدیم ترین جنگوں کو چھوڑ کر آخری 100 سال کی جنگوں کا جائزہ لیا جائے تو بھی ایسی داستانیں سامنے آئیں گی جنہیں سننا یا برداشت کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں۔

دنیا کی جدید اور بڑی جنگوں کی تاریخ آج سے 105 سال قبل جنگ عظیم اول سے شروع ہوتی ہے اور اس جنگ نے انسانوں کے خیالات اور رویوں کو بھی تبدیل کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

جنگ عظیم اول سے لے کر عرب-اسرائیل جنگ اور پھر نائن الیون حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف جدید جنگوں نے دنیا کو صرف تشدد، خوف، بھوک اور بے بسی ہی دی ہے۔

جنگ عظیم اول سے لے کر اب تک کی تمام جنگوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلے گا کہ یہ جنگیں معمولی باتوں اور کچھ شخصیات کی انا کی وجہ سے ہی لڑی گئیں۔

جنگ عظیم اول

جنگ عظیم اول 1914 سے 1919 تک لڑی جاتی رہی—فوٹو: آئرش ٹائمز

اس جنگ کو دنیا کی جدید تاریخ کی سب سے بڑی، پہلی اور خوفناک جنگ سمجھا جاتا ہے جو 1914 سے لے کر 1919 تک یورپ کے متعدد ممالک کے درمیان لڑی گئی۔

یہ جنگ اس وقت کے آسٹریا ہنگری کے شہزادے آرک ڈیوک فرینز فرڈینڈ اور ان کی اہلیہ صوفیہ کو بوسنیا و ہرزیگووینا کے شہر سرائیوو میں جون 1914 کو قتل کرنے کے بعد شروع ہوئی۔

شہزادے اور ان کی اہلیہ کو قتل کرنے کا الزام سربیا کے قوم پرست جماعت کے کارکن پر لگا اور یوں آسٹریا ہنگری کے سربیا سے تعلقات کشیدہ ہوگئے، جن کے تعلقات پہلے ہی مسائل کا شکار تھے، تاہم شہزادے اور ان کی اہلیہ کے قتل نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے شدید مخالف ہوگئے۔

دونوں ممالک کو یورپ کے مختلف ممالک کی حمایت بھی حاصل رہی، سربیا کو روس، برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک جب کہ آسٹریا ہنگری کو جرمنی اور سلطنت عثمانیہ (ترکی) جیسے ممالک کی حمایت حاصل رہی۔

یوں 2 ممالک کی جنگ نے دیکھتے ہی دیکھتے پورے یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور 5 سال تک جاری رہنے والی جنگ میں کم سے کم 85 لاکھ فوجی اور ہزاروں عام شہری ہلاک ہوئے۔

اس جنگ کے خاتمے کے بعد جہاں جرمنی کو کمزور کرکے رکھ دیا گیا، وہیں سلطنت عثمانیہ کے بھی ٹکڑے کردیے گئے اور برطانیہ کی شہنشاہیت بھی کمزور پڑنے لگی، یورپ بھر میں بھوک اور غربت نے ڈیرے جمالیے، بیماریوں نے سر اٹھائے اور دنیا پہلی بار جنگ کے خوف سے ڈرنے لگی۔

جنگ عظیم دوئم

جنگ عظیم دوئم 1939 سے 1945 تک جاری رہی—فوٹو: پے پروڈس

جنگ عظیم اول سے قبل جرمنی بہت طاقتور ملک تھا ، مگر جنگ کے اختتام تک وہ کمزو ہو چکا تھا اور پھر فرانس ، برطانیہ اور روس جیسے ممالک نے امریکی مدد سے اسے مزید کمزور اور کمتر کردیا تھا اور وہ 1919 سے 1930 تک ایک شکست خوردہ ملک کی طرح چلتا رہا۔

ایڈولف ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی ایک بار پھر طاقتور ملک کے طور پر ابھرنے لگا اور پھر ہٹلر نے برطانیہ، روس اور فرانس سمیت دیگر ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کا جواب دینے کے لیے 1938 میں طاقت اور جارحیت کا مظاہرہ کرنا شروع کردیا ۔

طاقتور ملک بننے کےبعد ہٹلر کی قیادت میں جرمنی نے 1938 میں پہلے آسٹریا پھر چیکو سلواکیہ اور بعد میں پولینڈ پر قبضہ کیا۔

جرمنی کی اس جارحیت کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا گیا، کیوں کہ جرمنی نے جنگ عظیم اول میں شکست کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے کہ وہ کسی بھی ملک پر حملہ آور نہیں ہوگا، لیکن پولینڈ پر حملہ کرنے کے بعد برطانیہ نے اس کے خلاف جنگ کا اعلان کیا اور یوں ستمبر 1939 میں جنگ عظیم دوئم کا آغاز ہوا۔

کیوں کہ اس زمانے میں ممالک کے ایک دوسرے کے ساتھ معاہدے میں تھے جن کے تحت اتحادی ممالک کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا تھا، اس لیے یہ جنگ بھی جنگ عظیم اول کی طرح کئی ممالک کے درمیان لڑی گئی اور اس جنگ نے دنیا کے نقشے کو ہی بدل دیا۔

جنگ عظیم دوئم کے درمیان ہی ایشیائی ملک جاپان بھی طاقتور ملک کے طور پر ابھر کر سامنے آیا، تاہم 1945 میں امریکا کی جانب سے اس پر گرائے گئے بموں نے دنیا کا نقشہ اور طاقت کا توازن ہی بدل دیا۔

جنگ عظیم دوئم کے اختتام پر 1945 سے پہلے طاقت میں رہنے والے برطانیہ، جاپان، اٹلی، جرمنی اور فرانس جیسے ممالک سمیت سب ممالک کمزور ہوگئے اور امریکا اور روس نئی طاقت بن کر ابھرے۔

اس جنگ نے اس وقت کسی نہ کسی طرح دنیا کے 50 سے زائد ممالک کو متاثر کیا اور اس سے لگ بھگ 2 کروڑ افراد ہلاک ہوئے، کروڑوں افراد زخمی ہوئے اور لاکھوں افراد کو ایک سے دوسرے ملک ہجرت کرنا پڑی۔

جنگ عظیم دوئم کے ختم ہونے کے بعد برطانیہ اور فرانس جیسے ممالک کمزور ہونے لگے تو انہوں نے ایشیا اور افریقا میں اپنے زیر تسلط رہنے والے ممالک کو آزاد کرنا شروع کیا ۔

کوریا جنگ

کوریا جنگ 1948 سے 1951 تک جاری رہی—فوٹو: دی میڈیم

جنگ عظیم دوئم کے بعد طاقتور ممالک کے طور پر ابھرنے والے ممالک نے جرمنی اور کوریا سمیت دیگر ممالک کو حصوں میں تقسیم کرکے انتطامات سنبھالنا شروع کیے جس کے بعد روس اور امریکا کوریا کی تقسیم کے معاملے پر الجھ پڑے۔

معاہدوں کے تحت کوریا کا شمالی حصہ روس اور جنوبی حصہ امریکا کے حصے میں آیا اور دونوں ممالک کو کچھ سال بعد کوریا کے دونوں حصوں سے نکل جانا تھا ، تاہم ایسا نہ ہو سکا اور معاملہ کشیدہ ہوگیا اور کوریا ہمیشہ کے لیے 2 ممالک میں تقسیم ہوکر رہ گیا۔

کوریا کے دونوں حصوں میں اس قدر نفرتیں پیدا ہوگئیں کہ دونوں نے 1948 میں ایک دوسرے سے جنگ چھیڑ دی اور ان کی جنگ میں بھی چین، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی کود پڑے اور کوریا کی جنگ اگلے تین سال تک لڑی جاتی رہی اور بعد میں اگرچہ معاہدوں کے ذریعے روس اور امریکا کوریا سے نکل گئے لیکن کوریا کبھی بھی ایک نہ ہوسکا۔

سرد جنگ

سرد جنگ بظاہر جنگ نہیں تھی لیکن یہ طویل عرصے تک جاری رہی—فوٹو: ایزی کلک نیٹ

اگرچہ سرد جنگ کو واضح طور پر لڑی جانے والی جنگ نہیں سمجھا جاتا، لیکن یہ ایسی جنگ تھی جو باقی جنگوں کے مقابلے طویل عرصے تک خفیہ طور پر لڑی جاتی رہی اور دنیا کے متعدد ممالک اس کا حصہ رہے، یہ جنگ دراصل روس اور امریکا کے درمیان ایک دوسرے پر سبقت حاصل کرنے کی جنگ تھی جو کوریا جنگ کے بعد شروع ہوکر سوویت یونین کے ٹوٹنے تک جاری رہی۔

اس جنگ میں اگرچہ اتنی زیادہ ہلاکتیں نہیں ہوئیں جتنی تعداد میں جنگ عظیم اول اور دوئم میں ہوئی تھیں، تاہم اس جنگ نے بھی دنیا کے امن کو 4 دہائیوں تک مفلوج بنائے رکھا اور سرد جنگ 1991 میں سوویت یونین کے بکھرنے کےبعد ہی بند ہوئی۔

ویت نام جنگ

ویت نام جنگ بھی 1955 سے 1975 تک جاری رہی—فوٹو: ہسٹری ڈاٹ کام

اس جنگ کو دراصل امریکا کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بھی کہا جاتا ہے جو سرد جنگ کے دوران اس وقت شروع ہوئی جب امریکا نے ویت نام میں اپنے اتحادی ملک فرانس کی مدد کے لیے اپنی فوجیں بھیجیں، ویت نام کو بھی جنگ عظیم دوئم کے بعد شمالی اور جنوبی کوریا کی طرح 2 حصوں میں تقسیم کردیا گیا تھا۔

ویت نام جنگ میں بھی کوریا جنگ کی طرح روس، امریکا، فرانس، کینیڈا، چین، جاپان اور آسٹریلیا کی فوجیں بھی لڑتی رہیں، تاہم ویت نام کے عوام کے اتحاد نے سب کو سرزمین سے نکلنے پر مجبور کیا۔

اس جنگ میں اگرچہ زیادہ تر ویت نام کے عوام ہی مارے گئے، تاہم ویت نام کے لوگوں کی امریکا اور فرانس سمیت اس کے اتحادیوں سے سخت نفرت نے امریکیوں کو بھی کافی نقصان پہنچایا اور وہ وہاں سے نکلنے پر مجبور ہوئے اور 25 سال بعد 1975 کے بعد نیا پر امن اور مضبوط متحد ویت نام وجود میں آیا۔

افغان جنگ

افغان جنگ 10 سال کے لیے تھمی اور بعد میں شروع ہوئی جو اب تک جاری ہے—فوٹو: دی کوئلیشن ریلیشنز

افغانستان میں 1978 کے بعد امریکا اور روس کی جانب سے لڑی جانے والی جنگ بھی دراصل ان دونوں ممالک کے مفادات اور طاقت کی جنگ تھی جو انہوں نے ایک مرتبہ پھر اپنی ہی سرزمین کے بجائے دوسرے ملک کی زمین پر لڑی۔

اس جنگ میں دیگر ممالک نے امریکا اور روس کا ساتھ دیا اور کئی سال تک افغان سر زمین پر دوسروں کی جنگ لڑی جاتی رہی۔

افغانستان میں بھی روس اور امریکا دوسرے ممالک کی مدد سے 1992 تک اس وقت تک مد مقابل رہے جب تک سوویت یونین بکھر ا نہیں۔

اگرچہ افغانستان کی پہلی جنگ 1978 سے 1992 تک لڑی گئی تاہم ایک دہائی کے وقفے کے بعد امریکا نے ایک بار پھر وہاں 2001 میں نئی جنگ چھیڑ دی اور اس بار امریکی جنگ کا انداز ماضی جیسا نہیں تھا۔

امریکا نے 9 ستمبر 2001 کو ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملے کے بعد دنیا بھر میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کردیا اور اس نے اس نئی مہم کا آغاز افغانستان سے کا العدم تنظیم القاعدہ کے خلاف جنگ لڑنے سے کیا اور یہ جنگ آج تک جاری ہے۔

اب اگرچہ امریکا نے افغانستان میں اپنی فوج کم کردی ہے، تاہم اب بھی امریکا یہاں موجود ہے اور اس کی جانب سے شروع کی گئی جنگ ختم نہیں ہوسکی۔

عراق جنگ

عراق پر امریکی حملے کے بعد اب تک حالات ٹھیک نہیں—فوٹو: ایم ایس این

یہ جنگ بھی جدید زمانے کی ایک ایسی جنگ ہے جسے خانہ جنگی کا نام دیا جاتا ہے اور اس جنگ کو بھی امریکا نے برطانیہ سمیت دیگر مضبوط ممالک کے اتحاد سے 2003 میں شروع کی۔

امریکا اور اس کے اتحادیوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ لگا کر 2003 میں عراق پر ایٹمی ہتھیار بنانے کا الزام عائد کرکے اس پر حملہ کردیا اور اسی حملے کے نتیجےمیں عراق کے صدر صدام حسین کو گرفتار کرکے ان پر مقدمے چلا کر انہیں پھانسی دی گئی اور بعد میں اعلان کیا گیا کہ اتحادی افواج عراق سے نکل رہی ہیں۔

مختلف رپورٹس اور اندازوں کے مطابق اس جنگ میں 6 لاکھ عام عراقی افراد مارے جا چکے ہیں، اگرچہ امریکا نے 2011 میں عراقی سے فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا، تاہم تاحال عراق میں اس جنگ کے اثرات جاری ہیں اور اب بھی یہ ملک خانہ جنگی کا شکار ہے۔

عرب- اسرائیل جنگ

اسرائیل کو عرب جنگوں میں امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کا ساتھ رہا—فوٹو: جیوش بک کونسل

یہ جنگ باقی تمام جنگوں سے مختلف نوعیت کی جنگ ہے جو عرب مسلمانوں کی جانب فلسطینی سر زمین پر قبضہ کرکے بنائی گئی صہیونی ریاست کے قیام کے خلاف لڑی جاتی رہی ہے، اس جنگ کو نظریاتی جنگ کا نام بھی دیا جاتا ہے جو اب تک مختلف عرب ممالک کے اتحاد اور اسرائیل کے درمیان لڑی جا چکی ہے۔

عرب اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ 1948 کے بعد اس وقت ہی شروع ہوگئی تھی جب امریکا اور برطانیہ کے تعاون سے یہودیوں کو یورپ سمیت دیگر خطوں سے لاکر فلسطین کی سرزمین پر آباد کیا جانے لگا۔

فلسطین کی سرزمین پر صہیونی ریاست کے قیام کے خلاف ہی اسرائیل کے ساتھ عرب ممالک نے 1948 کے بعد 1956، 1967 اور 1973 میں بھی جنگ لڑی اور ان جنگوں میں اسرائیل کو امریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کا بھی ساتھ رہا۔

گلف جنگ

گلف جنگ عراقی جارحیت کا نتیجہ تھی—فوٹو: انسائیکلو پیڈیا برٹینکا

اس جنگ کو سقوط کویت کا نام بھی دیا جاتا ہے اور یہ جنگ دراصل عراقی جارحیت تھی۔

یہ جنگ 1990 میں عراق کی جانب سے کویت پر کیے گئے حملے سے شروع ہوئی اور یہ 7 ماہ تک جاری رہی۔

عراق کے اس وقت کے صدر صدام حسین کے احکامات پر عراقی فوج نے کویت پر تیل چرانے کا الزام لگا کر حملہ کردیا اور کئی ماہ تک عراقی فوج نے وہاں جنگ جاری رکھی۔

عراقی جارحیت کے خلاف ہی سعودی عرب کی قیادت میں امریکا سمیت 35 ممالک کی فوج کا اتحاد تشکیل دیا گیا جس نے کویت پر حملہ کرنے والی عراقی فوج پر حملہ کردیا اور عراقی فوج کو وہاں سے نکلنے پر مجبور کیا۔

عرب انقلاب-شام خانہ جنگی

شام میں خانہ جنگی سے لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے—فوٹو: پیس ایکشن

عرب ممالک میں دسمبر 2010 کے بعد انقلاب کے نام پر حکومتوں کے خلاف ایک نئی عوامی مہم شروع ہوئی جس نے تیونس سمیت کئی ممالک میں کئی سال سے قائم حکومتوں کو ختم کردیا۔

یہ انقلابی تحریک جنہیں ابتدائی طور پر عرب بہار کا نام دیا گیا تھا دسمبر 2010 میں شروع ہوئی جب تیونس کے ایک گریجوئیٹ نوجوان محمد بو عزیزی نے بے روزگاری اور ملک کی بدحالی کے باعث خود کو آگ لگا دی تھی، وہ کئی سال تک نوکری تلاش کرنے میں ناکام ہونے کے بعد پھلوں کا ٹھیلہ لگا کر گزر سفر کر رہا تھا، مگر پولیس نے ان سے ٹھیلے لگانے کی بھی رشوت مانگی تھی، یہ نوجوان واقعے کے چند روز بعد ہسپتال میں دم توڑ گیا تھا اور ان کے مرنے کے بعد ہی عرب بہار یا انقلاب کا باقاعدہ آغاز ہوا۔

عرب انقلاب کی وجہ سے ہی کئی سال سے حکومت کرنے والے لیبیا کے حکمران کرنل معمر قذافی کو جان سے ہاتھ دھونا پڑا اور اب تک لیبیا میں خانہ جنگی جاری ہے۔

اسی انقلاب اور بغاوت نے لیبیا، تیونس اور مصر کے بعد شام کا رخ کیا اور خیال کیا جا رہا تھا کہ وہاں پر بھی حکومت پر کئی سال سے قابض بشار الاسد سے عوام کو چھٹکارہ مل جائے گا، تاہم بشارالاسد کو روس اور ایران جیسے ممالک کے تعاون سے معاملہ مزید گمبھیر بن گیا۔

شام میں گزشتہ 8 سال سے جاری خانہ جنگی کے باعث اب تک لاکھوں افراد ہلاک اور لاکھوں افراد اپنا گھر چھوڑ کر بیرون ملک جا چکے ہیں اور شام کھنڈرات میں تبدیل ہوچکا ہے، تاہم شامی خانہ جنگی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی۔

عرب انقلاب ، بغاوت اور خانہ جنگی کے شکار ممالک میں یمن بھی شامل ہے۔

جنگوں سے انسانوں نے بربریت، بھوک اور بیماریاں دیکھی ہیں—فوٹو: ایشیا نیٹ