افسانہ: کوئی بھی نام دے دو

اس نے سگریٹ کا کش لے کر دھواں ہوا میں اُڑا دیا۔
’آپ سگریٹ پئیں گے؟‘
’نہیں شکریہ میں سگریٹ نہیں پیتا‘، میں نے کہا۔
’شاعر اور افسانہ نگار سگریٹ نہیں پئیں تو لکھتے کیسے ہیں؟‘، اُس نے پوچھا۔
’لوگوں ہی سے معاشرہ بنتا ہے‘، میں نے کہا۔
’بھاڑ میں جائے معاشرہ۔ مجھے یہ بتائیں کہ آخر ضرورت کیا ہے کسی کی تنہائی میں دخل اندازی کرنے کی؟ اچھا بھلا صبح اٹھتا تھا، اشرف ہوٹل والے کے پاس ناشتہ کرتا اور دفتر چلا جاتا۔ رات کو واپس لوٹتا، صبح والا اخبار رات کو پڑھتے پڑھتے سوجاتا اور پھر صبح ہوجاتی تھی۔ آخر ضرورت ہی کیا تھی اسے میری تنہائی میں مخل ہونے کی؟‘
’صحیح بات ہے‘، میں نے کہا۔
’نہیں بالکل نہیں یہ غلط بات ہے‘، اس نے مالک مکان کو بُرا بھلا کہتے ہوئے کہا
’آخر اس نے ساتھ والا مکان کرائے پر دیا ہی کیوں تھا اور دینا بھی تھا تو اس فورمین کو لازمی دینا تھا جس کی بیٹی نے میری زندگی تباہ کردی ہے‘۔
’کیا نام تھا لڑکی کا؟‘، میں نے پوچھا۔
’نام کا کیا ہے، کوئی بھی نام دے دو، نادیہ، عدیلہ، شکیلہ کوئی بھی نام دے دو، نام سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فرق تو میری زندگی میں پڑگیا نا۔ رات 2 بجے بیٹھ کر بیسواں سگریٹ پی رہا ہوں، آپ خود بتائیں اسے کیا فرق پڑا اور ادھر میرے پھیپھڑے جواب دینے لگے ہیں‘۔
’شاید اسے اس بات سے فرق نہیں پڑتا‘، میں نے کہا۔
’شاید کیا یقیناً۔ اسے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ہم تباہ و برباد ہوگئے۔ ایک صبح اچھا بھلا دفتر جارہا تھا کہ دروازے سے سر نکال کر کہتی ہے سنیے ہم آپ کے نئے پڑوسی ہیں اگر آپ کو جلدی نہ ہو تو اس فہرست میں لکھا سامان تو بازار سے لادیں۔ ہمارے ابّا ابھی گھر پر موجود نہیں اور مجھے بازار کا راستہ نہیں معلوم۔ بھئی اس بات کا کوئی تُک بنتا ہے کہ دفتر جاتے آدمی کو روک کر سامان کی فہرست تھما دی جائے۔ میں نے بھی سمجھا مجبور ہیں سو سامان لادیتا ہوں۔ شام کو واپس لوٹا تو دروازے پر دستک ہوئی، جاکر دیکھا تو محترمہ کھیر بناکر لائی ہیں کہ پڑوسیوں کا اتنا تو حق بنتا ہے‘۔
’آپ غالباً میری بات توجہ سے نہیں سن رہے‘، اس نے شکایت کی۔
’نہیں، نہیں معذرت، میں سُن رہا ہوں‘، میں نے معذرت کی اور اس کی جانب دیکھنے لگا۔
’اسی نئی پڑوسن کی بات کررہا ہوں، فورمین کی بیٹی کی‘۔
’آپ نے نام نہیں بتایا تھا سو اس لیے میں نے پوچھا تھا‘۔
’جی جی کیوں آپ کے چہرے کو کیا ہوا؟‘ میں نے پوچھا۔
’ٹھیک کہہ رہا ہوں نا‘ اس نے پوچھا۔
اس نے ایک اور سگریٹ جلائی، کش لیا اور دھواں ہوا میں چھوڑدیا۔
اس نے کہا شیراز آج موسم بہت اچھا ہے۔
’وہ لڑکا کون تھا‘، میں نے پوچھا۔
’کون؟ معذرت آپ نے ابھی تک نام نہیں بتایا‘
’نام سے کیا ہوتا ہے، کوئی بھی نام دے دیں‘
یہ کہہ کر وہ اٹھا ایک اور سگریٹ جلائی اور کافی ہاؤس سے باہر نکل گیا۔
میں نے گھبرا کر اپنا موبائل نکالا اور وہاں شام کو موصول ہوئے پیغام کو حیرت سے تکنے لگا۔
پاکستان اور انڈیا کے بیشتر اردو اخبارات اور جرائد میں محمد جمیل اختر کے افسانے شائع ہوچکے ہیں، جس میں فنون، ادبیات، ایوان اردو دہلی، ادب لطیف، اردو ڈائجسٹ اور سہ ماہی تسطیر قابل ذکر ہیں۔ افسانوں کی پہلی کتاب ’ٹوٹی ہوئی سڑک‘ 2017 میں شائع ہوئی۔