اس نے کہا شیراز آج موسم بہت اچھا ہے۔
’اب بھلا بتائیے اتنے دکھ میں موسم کی کسے پرواہ ہوسکتی ہے؟ یہ کیسا عجیب سوال تھا اب بھلا میں اسے کیسے بتاتا کہ مجھے اس سے بہت شکایت تھی۔ اگلے دن بھی بہت سے عام سوالات ہوئے، میں نے کسی کا جواب نہیں دیا۔ دفتر جاتے ہوئے اس نے آواز دی میں نے سنی ان سنی کردی، اس کا میسج آیا آپ ناراض ہیں؟ اب بھلا آدمی ناراض بھی نہ ہو؟ میں نے سوچا شام کو اس موضوع پر بات کروں گا لیکن اسی شام میں نے پھر اسے ریسٹورینٹ میں اسی لڑکے سے محوِ گفتگو پایا۔‘
’وہ لڑکا کون تھا‘، میں نے پوچھا۔
’میں نہیں جانتا، میں دونوں دفعہ اس لڑکے کا چہرہ نہیں دیکھا سکا تھا۔ مجھے ان دنوں یہ خیال آتا کہ اگر اسے اس لڑکے سے محبت ہے تو پھر میں کہاں تھا؟ کیا آپ بتاسکتے ہیں میں کہاں تھا؟ میں اداسی کے ایک وسیع صحرا میں تھا لیکن اس کے وہی عام سوالات کہ آپ ناراض کیوں ہیں؟ معلوم نہیں وہ اس ساری صورتحال کو سمجھ کیوں نہیں رہی تھی۔ پھر اس کا پیغام ملا کہ اچھا آپ ناراض ہی رہیں۔ میں سمجھا وہ میری خاموشی کو احتجاج سمجھے گی لیکن ایسا نہیں تھا۔‘
پھر کچھ روز بعد ایک میسج آیا کہ جانے سے پہلے خدا حافظ تو کہہ دیں۔ میں نے اس کے جانے کا تو سوچا ہی نہیں تھا۔ میں نے پوچھا کہاں جارہی ہو، جواب آیا میری شادی ہورہی ہے میں کراچی جارہی ہوں۔ اگلے ہفتے اس کی شادی بھی ہوگئی اور وہ کراچی چلی گئی۔ اس طرح بھی بھلا کسی کہانی کا اختتام ہوتا ہے؟ میں نے ابھی کچھ بتایا ہی نہیں تھا اور وہ چلی گئی۔
مجھے اس کی ایسی عادت پڑگئی تھی کہ اب میں رات بھر شہر میں آوارہ پھرتا ہوں، 2 سال سے کوئی اخبار نہیں پڑھا، کسی کام میں دل نہیں لگتا۔ گھر کی دیواریں کاٹ کھانے کو دوڑتی ہیں، دیواروں پر جالے پھر سے آگئے ہیں، سامان بے ترتیب ہے بالکل میری طرح اور یہ دیکھیے آج پھر اس کا پیغام آیا ہے۔
’میں کراچی سے آرہی ہوں، مجھے شوہر نے طلاق دے دی ہے، وہ بہت ظالم تھا، باقی باتیں آپ کو وہاں آکر بتاؤں گی۔ ویسے آپ کیسے ہیں؟‘
’یہ کیا بات ہوئی جناب؟‘
’کون؟ معذرت آپ نے ابھی تک نام نہیں بتایا‘
’نام سے کیا ہوتا ہے، کوئی بھی نام دے دیں‘
یہ کہہ کر وہ اٹھا ایک اور سگریٹ جلائی اور کافی ہاؤس سے باہر نکل گیا۔
میں نے گھبرا کر اپنا موبائل نکالا اور وہاں شام کو موصول ہوئے پیغام کو حیرت سے تکنے لگا۔