’ب سے برگر... پ سے پیزا!‘
ابھی زیادہ پرانی بات نہیں، جب ہم نے ایک طالب علم کی اردو کی کاپی میں ’تنّزل‘ کے معنی ’نازل ہونا‘ لکھے دیکھے تو ہکا بکا رہ گئے۔ اسی طرح ایک استاد سے جب کہا گیا کہ آپ اردو پڑھاتی ہیں، ذرا داغ کا کوئی شعر تو سنائیے؟ تو موصوفہ نے کہہ ڈالا ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں...!!‘
بات یہ ہے کہ ہماری سماجی پسماندگی کا اثر جہاں اردو پر پڑ رہا ہے، وہاں یہ اپنے حلیے، بناؤ سنگھار سے لے کر تہذیبی طور پر بھی شدید مسائل سے دوچار نظر آتی ہے۔ معروف ادیبہ ڈاکٹر نجیبہ عارف سے جب یہ پوچھا گیا کہ آج کل ٹی وی کے ذریعے جس اردو کو رواج دیا جا رہا ہے کہ کیا زبان پھر یہی ہوجائے گی؟ تو انہوں نے ایک جملے میں گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا کہ ’یہ زبان کوئی کھانے کی ترکیب نہیں کہ آپ نے دیکھا اور بنا لی، بلکہ زبان چاہے جو بھی لکھ اور بول دی جائے، جب تک آپ اور ہم اسے نہیں اپنائیں گے، وہ آگے نہیں بڑھے گی۔‘