’ب سے برگر... پ سے پیزا!‘

ابھی زیادہ پرانی بات نہیں، جب ہم نے ایک طالب علم کی اردو کی کاپی میں ’تنّزل‘ کے معنی ’نازل ہونا‘ لکھے دیکھے تو ہکا بکا رہ گئے۔ اسی طرح ایک استاد سے جب کہا گیا کہ آپ اردو پڑھاتی ہیں، ذرا داغ کا کوئی شعر تو سنائیے؟ تو موصوفہ نے کہہ ڈالا ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں...!!‘
بات یہ ہے کہ ہماری سماجی پسماندگی کا اثر جہاں اردو پر پڑ رہا ہے، وہاں یہ اپنے حلیے، بناؤ سنگھار سے لے کر تہذیبی طور پر بھی شدید مسائل سے دوچار نظر آتی ہے۔ معروف ادیبہ ڈاکٹر نجیبہ عارف سے جب یہ پوچھا گیا کہ آج کل ٹی وی کے ذریعے جس اردو کو رواج دیا جا رہا ہے کہ کیا زبان پھر یہی ہوجائے گی؟ تو انہوں نے ایک جملے میں گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا کہ ’یہ زبان کوئی کھانے کی ترکیب نہیں کہ آپ نے دیکھا اور بنا لی، بلکہ زبان چاہے جو بھی لکھ اور بول دی جائے، جب تک آپ اور ہم اسے نہیں اپنائیں گے، وہ آگے نہیں بڑھے گی۔‘
ظاہر ہے زبان کا بنیادی وسیلہ عام بول چال ہی ہے، اگرچہ کسی بولی کو ’زبان‘ کے ’تکمیلیت‘ سے روشناس کرانے والا اس کا تحریری ہونا ہے، لیکن تحریر دراصل بولے جانے والی زبان کے بعد ہی کا درجہ ہے۔ تحریری زبان ذرا ڈھنگ سے لکھے جانے کا اہتمام مانگتی ہے، اس لیے توقع کی جاتی ہے کہ لکھتے ہوئے اسے خوب سے خوب تر انداز میں ادا کیا جائے اور بول چال میں ہونے والی کسی بھی غلطی سے دُور رہا جائے۔
نسلِ نو کو زبان سکھانے کے واسطے یہ تحریر ہی ایک اہم اور کارگر وسیلہ ہے۔ تب ہی ہمارے نصاب میں باقاعدہ ایک پورا مضمون ’اردو‘ کے عنوان سے شامل ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں ہم زبان کے رموز پر ذرا کم ہی بات کرتے ہیں اور ’اردو‘ کے نصاب میں بیشتر مواد مذہب، سماجیات اور تاریخ وغیرہ کے گرد گھومتا ہے، حالانکہ اس حوالے سے باقاعدہ مضامین بھی موجود ہیں۔ اگر اس کے بجائے زبان دانی کے حوالے سے مواد شامل کیا جائے، قواعد و انشا، تحریر و تقریر سے لے کر مختلف و منفرد اندازِ بیاں اور ’اصناف ادب‘ تک بات کی جائے، تاکہ طالب علم زبان اور اس کے استعمال کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرسکے اور ساتھ ہی املا و انشا سے لے کر تھوڑی بہت ’ادب‘ کی شد بد بھی پاسکے۔
ایک طرف اردو کے بعض قاعدوں کا حال اب یہ ہوچکا ہے کہ ان میں نوبت ’ب سے برگر‘ اور ’پ سے پیزا‘ آگیا ہے، دوسری طرف ’ث سے ثمر‘، ’ذ سے ذخیرہ‘، ’ژ سے ژالہ‘، ’ظ سے ظروف‘ ’غ سے غالیچہ‘ پڑھا تو دیا جاتا ہے، لیکن بچوں کے لیے ان مشکل الفاظ کے مطلب واضح نہیں کیے جاتے۔ نتیجہ کیا ہوتا ہے کہ وہ تین چار پھلوں کے یک جا ہونے کو ثمر سمجھ لیتا ہے، کہیں ریتی کا ڈھیر ہو یا بوریاں جمع ہوں تو بس اسی کو ذخیرہ کہہ لیتا ہے، ژالہ سے مراد وہ بارش کی کوئی شکل طے کر لیتا ہے، ایک قاعدے میں ژالہ باری کی تصویر میں چھتری بھی تھی، تو استاد کا یہ حال تھا کہ وہ ’ژ سے چھتری‘ پڑھاتے رہے!
’ظ سے ظروف‘ اور ’غ سے غالیچہ‘ بھی توجہ کا طالب ہے۔ یہ دونوں الفاظ ہماری عام گفتگو میں کتنا استعمال ہوتے ہیں، یہ بھی دیکھ لیجیے! غ سے تو غبارے کسی قاعدے میں ہیں، لیکن ظ سے تو ہمیں بھی کوئی ’اسم‘ نہیں سوجھ رہی!
تحریر کے لیے بچوں کو سطر سے نیچے اور اوپر ہونے والے لفظوں کے حوالے سے آگہی فراہم کی جا رہی ہے، لیکن دوسری طرف ڈاکٹر رؤف پاریکھ شوشوں میں کمی بیشی سے غفلت کرنے کو سخت گستاخی خیال کرتے ہیں۔ بچے کو اسکول میں ’اردو لٹریچر‘ کی کاپی لانے کو کہا جاتا ہے، حالانکہ لٹریچر کے بجائے ’نثر‘ کتنا سہل لفظ ہے۔
ہمارے چچا غالبؔ نے ایک مصرع کیا کہہ دیابارے آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
بلاگر ابلاغ عامہ کے طالب علم ہیں۔ برصغیر، اردو، کراچی اور مطبوعہ ذرایع اِبلاغ دل چسپی کے خاص میدان ہیں۔ ایک روزنامے کے شعبۂ میگزین سے بطور سینئر سب ایڈیٹر وابستہ ہیں، جہاں ہفتہ وار فیچر انٹرویوز اور ’صد لفظی کتھا‘ لکھتے ہیں۔