پاکستان

بچوں کو گھریلو ملازم نہ رکھنے کے قانون پر عمل درآمد کروانے کا حکم

لاہور ہائیکورٹ نے گھریلو ملازمین سے متعلق صوبے خان کی درخواست پر 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔
|

لاہور ہائیکورٹ نے حکومت پنجاب کو 15 سال سے کم عمر بچوں کو گھروں میں کام پر نہ رکھنے کے قانون پر سختی سے عمل درآمد کروانے کا حکم دے دیا۔

عدالت عالیہ کے جج جسٹس جواد حسن نے گھریلو ملازمین پر تشدد کے خلاف صوبے خان کی درخواست پر 22 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلہ جاری کردیا۔

درخواست گزار کی جانب سے شیراز ذکا ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے جبکہ حکومتِ پنجاب کی جانب سے اسسٹنٹ ایڈووکیٹ جنرل رائے شاہد نے دلائل دیئے تھے۔

مزید پڑھیں: 'مجوزہ قانون میں 15 سال سے کم عمر بچوں کی گھریلو ملازمت پر پابندی خوش آئند'

عدالت عالیہ نے کھلی عدالت میں فیصلہ سنایا، جس میں عدالت نے گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی کرنے پر پنجاب حکومت کی تعریف بھی کی۔

عدالتی فیصلے میں حکم دیا گیا کہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے تحفظ کے لیے خصوصی عدالتیں بنائی جائیں، اس کے علاوہ یہ حکم بھی دیا گیا کہ گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے تحفظ کے لیے کمیٹیاں بھی تشکیل دی جائیں۔

لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو ہر سال گھروں میں کام کرنے والے 15 سال سے بڑی عمر کے گھریلو ملازمین کی تنخواہوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا حکم بھی دیا۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمر گھریلو ملازمہ پر تشدد کا ایک اور واقعہ

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ یکم مئی کو مزدروں کے دن کے موقع پر گھریلو ملازمین کو بھی چھٹی دی جائے۔

عدالت عالیہ نے فیصلے میں حکم دیا کہ گھریلو ملازمین کے تحفظ کے لیے سوشل سیکیورٹی کا ادارہ بھی قائم کیا جائے جبکہ اس کے ساتھ ہی عدالت نے گھریلو ملازمین کے لیے ملک بھر میں میڈیا آگاہی مہم بھی چلانے کا حکم دیا۔

اس سے قبل 20 دسمبر 2018 کو لاہور ہائیکورٹ نے پنجاب حکومت کو گھریلو ملازمین سے متعلق قانون سازی کا حکم دیتے ہوئے مجوزہ قانون میں 15 سال سے کم عمر بچوں کی گھریلو ملازمت پر پابندی کو خوش آئند قرار دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ملازمہ تشدد کیس: خاتون فوجی افسر اور ان کے شوہر کے خلاف مقدمہ درج

یاد رہے کہ درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو بتایا تھا کہ پنجاب میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ لاہور ہائیکورٹ 2015 میں گھریلو ملازمین پر تشدد کے حوالے سے قانون سازی کا حکم دے چکی ہے۔

درخواست گزار کے وکیل نے عدالت کو مزید بتایا تھا کہ عدالتی حکم کے باوجود قانون سازی نہیں کی جا رہی اور نہ عمل درآمد کیا جا رہا ہے اور ساتھ ہی عدالت سے استدعا کی تھی کہ عدالت پنجاب حکومت کو قانون سازی پر عمل درآمد کرنے کا حکم دے۔