اسلام آباد ہائی کورٹ نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں دی جانے والی سزا کے فیصلے کے خلاف دائر ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا۔
نواز شریف نے طبی بنیادوں پر عدالتی فیصلے کے خلاف ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن کے بینچ نے ضمانت کی درخواست پر محفوظ مختصر فیصلہ سنادیا۔
ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے مذکورہ درخواست کا تفصیلی فیصلہ کچھ دیر میں جاری کیا جائے گا۔
بعد ازاں عدالت کی جانب سے 9 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ نواز شریف نے ’مکمل طور پر‘ طبی بنیادوں پر ضمانت کی کوشش کی۔
تفصیلی فیصلے میں کہا گیا کہ یہ عدالت کے دائرہ کار میں ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ضمانت پر سزا معطل یا قیدی کی رہائی کرے (آیا اس کا ٹرائل ہو رہا ہو یا وہ مجرم ہو)، تاہم اس طرح کے دائرہ کار کو غیر معمولی حالات میں انتہائی سخت معاملات کے کیسز میں استعمال کیا جانا چاہیے‘۔
عدالتی فیصلے میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے رہنما شرجیل انعام میمن سمیت مختلف کیسز کا حوالہ دیا گیا اور اس بات پر بات کی گئی کہ آیا نواز شریف کی حالت کو ’غیر معمولی صورتحال اور انتہائی سخت معاملات میں سے ایک‘ قرار دیا جاسکتا ہے‘۔
واضح رہے کہ شرجیل انعام میمن کی طبی بنیادوں پر ضمانت کی درخواست کو مسترد کردیا گیا تھا۔
فیصلے کے مطابق ’ریاست بمقابلہ حاجی کبیر خان کیس میں سپریم کورٹ نے یہ مشاہدہ کیا تھا کہ اگر ملزم ہسپتال یا جیل میں مناسب علاج حاصل کر رہا ہے تو وہ ضمانت کا حق دار نہیں ہوگا‘۔
اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ (نواز شریف کی حالت سے متعلق) کسی رپورٹ میں یہ تجویز نہیں دی گئی کہ درخواست گزار کا مسلسل قید میں رہنما کسی بھی صورت میں ان کی زندگی کے لیے خطرناک ہوگا‘۔
فیصلے کے مطابق ’درخواست گزار (نواز شریف) کو جنوری 2019 سے اب تک جب بھی طبیعت کی ناسازی سے متعلق شکایت ہوئی انہیں ہسپتال میں داخل کروایا گیا، حتیٰ کہ ڈاکٹروں کے بورڈ اور مختلف ٹیموں کی رپورٹ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ درخواست گزار کو پاکستان میں کسی بھی شخص کے لیے دستیاب ممکنہ طبی سہولیات مل رہی ہیں‘۔
عدالتی فیصلے کے مطابق مذکورہ صورتحال ’غیر معمولی اور/ یا انتہائی مخصوص‘ معاملے میں نہیں آتی جس کی بنیاد پر ضمانت پر رہا کیا جائے‘۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے اختتام میں کہا گیا کہ یہ ’درخواست میرٹ پر پوری نہیں اترتی‘ اور اسے اس بنیاد پر مسترد کیا جاتا ہے۔
بعد ازاں عدالتی فیصلے کے بعد سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے جناح ہسپتال میں مزید علاج سے انکار پر لاہور کی کوٹ لکھپت جیل منتقل کردیا گیا۔
علاوہ ازیں عدالت کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کی درخواست ضمانت مسترد ہونے پر ان کی صاحبزادی مریم نواز نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر ایک شعر ٹوئٹ کیا۔
19 فروری 2019 کو اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی جانب سے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 7 سال سزا کی معطلی کے لیے دائر درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن کیانی پر مشتمل اسلام آباد ہائیکورٹ کے ڈویژن کے بینچ نے وکیل دفاع خواجہ حارث اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا تھا۔