دنیا

ایران میں معاشی بحران، صدر روحانی سے استعفے کا مطالبہ

صدارتی انتخاب ہر 4 برس بعد ہوتے ہیں، جب عوام نے ایک خاص نظریے کے لیے ووٹ دیا تو اس کی حمایت کرنی چاہیے، حسن روحانی

ایران میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے ایرانی صدر حسن روحانی سے استعفے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

خبر ایجنسی اے پی کے مطابق ایران میں اسلامی انقلاب کے 40 سال مکمل ہونے کے حوالے سے منعقدہ تقریب میں ایک مذہبی رہنما نے اپنی تقریر میں صدر حسن روحانی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ’ آپ مہنگائی کے ذمہ دار ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ آپ آئندہ چند ماہ میں عہدے پر نہیں رہیں گے‘ ۔

ایرانی صدور کے حوالے سے کہا جاتا ہے وہ اپنی مقبولیت دوسری 4 سالہ مدت کے دوران بتدریج ختم کھو بیٹھتے ہیں لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حسن روحانی خصوصی طور پر ایران میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں۔

ایران میں جاری بحران کی وجہ سے کرنسی کی قدر میں بدستور کمی آرہی ہے، شہری مشکلات کا شکار ہیں اور ناقدین ان کی برطرفی کا مطالبہ کررہے ہیں۔

امریکا کی جانب سے جوہری معاہدے سے دست برداری اور تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے حسن روحانی کو مذہبی رہنماؤں کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے جس کی وجہ سے ان کے اقتدار کو خطرات درپیش ہیں۔

مزید پڑھیں: ایران پر امریکی پابندیاں ‘معاشی دہشت گردی’ ہے، حسن روحانی

قاسم ابہاری جو تہران میں جرابیں اور ٹوپیاں بیچتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے پرواہ نہیں کہ صدارتی محل میں کون ہے، مذہبی رہنما، جنرل یا کوئی اور ، ہمیں کسی ایسے شخص کی ضرورت ہے جو روزگار کے مواقع پیدا کرے اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کو روکے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس امریکا 2015 کے جوہری معاہدے سے دست بردار ہوگیا تھا جس کی وجہ سے ایرانی ریال کی قدر میں شدید کمی آئی اور ملک بھر میں مظاہروں میں بھی اضافہ ہوا۔

ایران میں جاری معاشی بحران کی وجہ سے ایک امریکی ڈالر ایک لاکھ 33 ہزار ایرانی ریال کے برابر ہے جبکہ امریکا سے جوہری معاہدے کے وقت ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ریال کے برابر تھا۔

سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی تصاویر کے مطابق ایران میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں 238 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اپنا کردار ادا نہیں کررہی، ایران

مخالفین کی جانب سے کراج کے علاقے میں ایرانی صدر کے ساتھی اور پارلیمنٹ کے اسپیکر علی لاریجانی کو عوامی اجلاس سے خطاب کرنے سے روک دیا تھا۔

ریٹائرڈ ایرانی جنرل حسن عباسی نے ایک تقریر میں کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ لوگ حسن روحانی، علی لاریجانی اور جواد ظریف پر عہدے سے ہٹنے کے بعد جوہری معاہدے کی وجہ سے تھوکیں گے‘۔

انہوں نے کہا کہ حسن روحانی جوہری معاہدے کے خاتمے پر خوف سے کانپ رہے ہیں۔

حسن روحانی کے حامی اخبار جمہوری اسلامی نے جنوری میں اپنے اداریے میں لکھا تھا کہ ’محترم صدر آپ کے پاس ایرانی حکومت میں رہتے ہوئے صرف 15 سے 20 فیصد طاقت حاصل ہے، آپ اس طاقت کے ساتھ ملک نہیں چلاسکتے اور نہ ہی اس کی تمام مشکلات اور مسائل کے لیے ذمہ دار قرار دیا جاسکتا ہے‘۔

ایرانی بندرگاہ بندر عباس کے دورے کے دوران حسن روحانی نے کہا تھا کہ ’صدارتی انتخاب ہر 4 برس بعد ہوتے ہیں، جب عوام نے ایک خاص نظریے کے لیے ووٹ دیا تو انہیں اس کی حمایت کرنی چاہیے‘۔

مزید پڑھیں: امریکا نے ایران کے ساتھ 4 دہائی پرانا سفارتی معاہدہ منسوخ کردیا

ایرانی پارلیمنٹ کے 9 مخالف وزرا نے ایرانی صدر کو نااہل کرنے کا مطالبہ کیا، ان کی برطرفی کے لیے پارلیمنٹ کے 290 اراکین میں سے دو تہائی افراد کی مخالفت درکار ہے۔

خیال رہے کہ 1981 میں پارلیمنٹ نے لبرل صدر ابوالحسن بانسدر کو نا اہل قرار دیا تھا جس کے بعد سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے انہیں برطرف کیا تھا۔

ایرانی قوانین کے مطابق حسن روحانی کو استعفیٰ دینے کی اجازت حاصل ہے اور کسی قسم کے مجرمانہ الزامات کے تحت انہیں عہدے سے برطرف کیا جاسکتا ہے۔

حسن روحانی کی 4 سالہ صدارتی مدت 2021 میں ختم ہوگی لیکن تہران میں سیاسی-اقتصادی تجزیہ کار سعید لیلاز کے مطابق آئندہ چند ہفتے ایرانی صدر کے لیے مشکل ثابت ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بعض افراد کی جانب سے صدر کا عہدہ ختم کرنے اور پارلیمانی نظام کے دوبارہ آغاز کی تجویز دی گئی ہے۔

سعید لیلاز نے کہا کہ ’آئندہ چند ماہ میں بڑھتے ہوئے دباؤ اور مسائل کی وجہ سے حسن روحانی مستعفی ہوسکتے ہیں یا حکومتی نظام میں تبدیلی آسکتی ہے‘۔