پاکستان

سانحہ ساہیوال جے آئی ٹی رپورٹ: خلیل اور اہلِ خانہ بے قصور، ذیشان دہشتگرد قرار

سی ٹی ڈی اہلکاروں نے صرف گاڑی کی نمبر پلیٹ دیکھ کر کارروائی کی اور ٹیم نے شواہد میں ردو بدل بھی کیا، جے آئی ٹی رپورٹ

لاہور: سانحہ ساہیوال کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے اپنی رپورٹ میں خلیل اور ان کے اہلِ خانہ کو بے قصور جبکہ ذیشان کو دہشت گرد تنظیم کا سرگرم کارکن قرار دے دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 5 اراکین پر مشتمل جے آئی ٹی کی سربراہی ایڈیشنل انسپکٹر جنرل پولیس اعجاز حسنین شاہ نے کی، جس کی رپورٹ وزیراعلیٰ عثمان بزدار کو جمع کروائی گئی، رپورٹ میں سانحہ ساہیوال میں شامل دیگر حقائق کا بھی ذکر کیا گیا۔

رپورٹ میں پولیس کے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کو بلا اشتعال فائرنگ کرنے کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے سی ٹی ڈی کے ایس ایس پی جواد قمر اور ریجنل افسر ڈی ایس پی آصف کمال کے خلاف کارروائی کی تجویز بھی دی گئی جن پر کرائم سین کو خراب کرنے اور انتظامی ناکامی کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: جج کا واقعے کے ثبوت فراہم کرنے کیلئے عوامی نوٹس

رپورٹ کے مطابق جائے وقوع پر ذیشان کے مبینہ ساتھیوں کے موٹر سائیکل پر فرار ہونے اور فائرنگ کرنے کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

آپریشن میں حصہ لینے والے سی ٹی ڈی اہلکار شواہد میں ردوبدل اور ضائع کرنے کے مرتکب قرار پائے جس میں ہتھیاروں میں چھیڑ چھاڑ ڈی وی آر اور جائے وقوع پر سنگل کیبن گاڑی پر فائرنگ کے نشانات شامل ہیں۔

رپورٹ میں مقتول ذیشان کے بھائی جو قانون نافذ کرنے والے ادارے کا اہلکار بھی ہے، کے کردار کو بھی مشتبہ قرار دے دیا گیا۔

رپورٹ کے مطابق کار کے شیشے دھندلے تھے جس کی تصدیق پنجاب فرانزیک سائنس ایجنسی (پی ایس ایف اے) کی رپورٹ، پی ایس سی اے کی ویڈیو فوٹیج/تصاویر، گولیوں کے سوراخ والے سن شیڈز کی برآمدگی اور اوکاڑہ ٹول پلازہ کے کیمروں سے بھی ہوئی۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: لاہور ہائی کورٹ کا جوڈیشل کمیشن بنانے پر حکومت سے جواب طلب

اور سی ٹی ڈی نے صرف پی ایس سی اے کی جانب سے ملنے والی تصویر میں موجود نمبر پلیٹ دیکھ کر کارروائی کی۔

رپورٹ کے مطابق صفدر کی سربراہی میں سی ٹی ڈی ٹیم نے کار میں بیٹھے افراد کو دہشت گرد سمجھ کر کار پر پیچھے سے بلا اشتعال فائرنگ کر کے روکا۔

فائرنگ کی وجہ سے کار سڑک پر موجود رکاوٹ سے ٹکرا کر رک گئی جس میں سے اہلکاروں نے 3 بچوں کو باہر نکالا اور بقیہ 4 افراد کو فائرنگ کرکے قتل کردیا۔

مذکورہ آپریشن کے بعد اہلکار پولیس لائنز میں اپنی بیرکوں میں ایک بج کر 44 منٹ پر واپس پہنچے جس کے بعد وہ 2 بج کر 53 منٹ پر ساہیوال میں موجود سی ٹی ڈی کے آفس کے لیے روانہ ہوئے، اس دوران انہوں نے ہتھیاروں میں ردوبدل کیا۔

ذیشان دہشتگرد قرار

جے آئی ٹی کے مطابق ذیشان کے داعش سے منسلک دہشت گردوں سے تعلقات تھے جن کا اندراج ریڈ بک میں اشتہاری مجرموں میں ہے۔

علاوہ ازیں ذیشان کے موبائل فون کی فرانزیک رپورٹ کے مطابق اس کے داعش پنجاب کی قیادت (خالد عرف بٹ صاحب) سے روابط تھے جو افغانستان سے ایک موبائل ایپلیکیشن کے ذریعے کام کرتا تھا۔

جے آئی ٹی کے مطابق ذیشان داعش قیادت سے ہدایات لیتا اور اپنے گروہ کے دیگر اراکین تک پہنچاتا تھا جبکہ ساہیوال واقعے میں جو کار اس کے زیر استعمال تھی وہ اصل میں ایک دہشت گرد عدیل حفیظ کی ملکیت تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: ’والدین کو قتل کرنے سے قبل اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی‘

بعد ازاں 14 اور 15 جنوری کو فیصل آباد میں ہونے والے پولیس مقابلے میں ہارون عثمان اور عدیل حفیظ کے ساتھ ایک اور دہشت گرد بھی ہلاک ہوا تھا۔

رپورٹ کے مطابق ’ذیشان کے موبائل میں اس کی ہارون عثمان کے ساتھ تصویر بھی پائی گئی جو 4 نومبر 2018 کو کھینچی گئی تھی، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں ساتھی تھے‘۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ ایس ایس پی جواد کو کار پر فائرنگ کرنے کے احکامات کہیں سے موصول نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے جائے وقوع کو محفوظ رکھا۔