سانحہ ساہیوال: جے آئی ٹی نے تحقیقات کیلئے مزید 10 روز مانگ لیے
لاہور: سانحہ ساہیوال پر بننے والی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے تحقیقات کے لیے دی گئی مہلت مکمل ہونے کے باوجود حتمی رپورٹ جمع نہیں کرائی اور تحقیقات مکمل کرنے کے لیے مزید 10 روز مانگ لیے۔
پنجاب حکومت کے ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے ایک ماہ کی مہلت گزرنے کے دو روز بعد بھی تحقیقاتی رپورٹ جمع نہیں کرائی اور مزید 10 روز کی مہلت مانگی ہے۔
تاہم پنجاب حکومت نے جے آئی ٹی کو مزید مہلت دینے سے انکار کرتے ہوئے آج ہی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی ہے۔
دوسری جانب پولیس ذرائع نے جے آئی ٹی کی تحقیقات کے حوالے سے دعویٰ کیا ہے کہ رپورٹ کے مطابق خلیل اور اس کے اہلخانہ بے گناہ جبکہ ذیشان کے دہشت گردوں سے رابطے تھے۔
ذرائع کے مطابق رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹیلی جنس رپورٹ ذیشان کے متعلق تھی جس کے دہشت گردوں سے رابطے تھے، جبکہ خلیل اور اس کے اہلخانہ کو آپریشن میں بچایا جا سکتا تھا۔
ذرائع نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے واقعے میں ملوث افسران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی ہے۔
بعد ازاں ساہیوال واقعے میں جاں بحق ذیشان کے بھائی احتشام اور وکیل فرہاد علی شاہ نے مشترکہ پریس کانفرنس میں جے آئی ٹی رپورٹ کو رد کرتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کہا گیا کہ احتشام نے اقرار کیا کہ اس کے بھائی کے مشکوک افراد سے رابطے تھے، حالانکہ ہم نے احتشام کا تحریری بیان جمع کروایا تھا جس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی۔
مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: ’والدین کو قتل کرنے سے قبل اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی‘
وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کی جانب سے احتشام سے 5 منٹ کی ہی تفتیش کی گئی جس میں صرف تین سوال پوچھے گئے، ابھی جے آئی ٹی نے اپنی تفتیش شروع ہی نہیں کی تو وزیر قانون پنجاب نے اسے دہشت گرد قرار دے دیا تھا، آج پولیس اہلکاروں کو بچانے کے لیے اسے دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے۔
اس موقع پر ذیشان کے بھائی احتشام کا کہنا تھا کہ 'میرا جو بیان چلایا جا رہا ہے وہ جے آئی ٹی کا من گھڑت بیان ہے اور سی ٹی ڈی، اپنے اہلکاروں کو بچانے کی کوشش کر رہا ہے۔'
انہوں نے مطالبہ کیا کہ 'بھرتی کے وقت میری جو تصدیق ہوئی تھی اس رپورٹ کو بھی جے آئی ٹی کی تحقیقات کا حصہ بنایا جائے اور جنہوں نے اس آپریشن کا حکم دیا انہیں بھی شامل تفتیش کیا جائے۔'
ان کا کہنا تھا کہ 'ذیشان کا کسی دہشت گرد تنظیم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، ذیشان سے جو لوگ ملنے آتے تھے ان کے ساتھ اس کے کاروباری مراسم تھے اور انہیں میں بھی جانتا ہوں۔'