سابقہ فاٹا کے معاشرتی اشاریے ملک میں سب سے بدتر تھے۔ تقریباً 70 فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ خواندگی کی شرح 30 فیصد سے بھی کم جبکہ اس میں خواتین کی شرح 10 فیصد سے بھی نیچے ہے۔ پاکستان میں بھاری غیر ملکی سرمایہ کاریاں آنے والی ہیں لیکن تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے قبائلی نوجوان خود کو ملنے والے اس موقعے سے فائدہ نہیں اٹھا پائیں گے۔ انہیں چوکیداروں اور ڈرائیوروں کے علاوہ دیگر ملازمتوں کے قابل بنانے کے لیے ضروری ہے کہ انہیں تعلیم اور تربیتی کورس کروائے جائیں۔ اس کام کے لیے تعلیم کے میدان میں مہارت رکھنے والے نامور اداروں سے مدد طلب کی جاسکتی ہے، بلکہ کی جانی چاہیے۔
قبائلی علاقوں میں تیز رفتار ترقی کی وزیرِاعظم کی خواہش کو مدِنظر رکھتے ہوئے صوبائی حکومت کو برق رفتاری سے کام کرنا ہوگا۔
ابتدائی پلان کے مطابق 22 گریڈ کے ایک سینئر افسر کو ٹرائبل ایریاز ڈیولپمنٹ کا چیف ایگزیکیٹو مقرر کیا جائے جو براہِ راست وزیرِاعلیٰ کو جوابدہ ہو اور قبائلی اضلاع میں تمام تر ترقیاتی سرگرمیوں کی نگرانی کرے۔
اس مقصد کے لیے فاٹا ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے دفاتر اور وسائل کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اسلام آباد میں قائم عارضی نقل مکانی کرنے والے افراد سے متعلق سیکریٹریٹ کو مزید مستحکم اور اسے پشاور منتقل کرنے کی ضرورت ہے، ساتھ ہی ساتھ اسے وزیرِاعلی کے ماتحت بنایا جائے۔
ریلیف اور بحالی کی سرگرمیاں نامناسب ہیں اور ان پر نگرانی درکار ہے۔
طورخم بارڈر کراسنگ کو 24 گھنٹے کھلے رکھنے کے فیصلے میں غلام خان اور حسب امکان چمن کراسنگز کو بھی شامل کیا جائے، ساتھ ہی ساتھ سرحد پار نقل و حرکت میں سہولت بھی فراہم کی جائے۔ سیاسی وجوہات کی بنا پر کراسنگز کی غیر اعلانیہ بندش سے کاروبار متاثر ہوا ہے، لہٰذا انہیں یقین دلانے کی ضرورت ہے کہ سرحدوں کی غیر اعلانیہ بندش نہیں ہوگی۔
قبائلی علاقوں کے عوام کو غیر مؤثر صلاحیت اور نااہلی کے باعث مزید دشواری سے دوچار نہ کیا جائے۔
انہیں گرم جوشی کے ساتھ گلے لگایا جائے اور یہ یقین دہانی کروائی جائے کہ وہ پاکستانی خاندان کا ایک اہم فرد ہیں۔ اگرچہ ان کی شکایات کو دُور کیا جانا ابھی باقی ہے لیکن ان کی جانب وزیرِاعظم نے جس فکر مندی کا مظاہرہ کیا وہ دل و دماغ جیتنے کے لیے کافی ہیں۔
یہ مضمون 21 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔