ان کا کہنا تھا کہ 2008 میں پیپلز پارٹی اور 2013 میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی، اگر انہیں لگتا ہے کہ نیب کا قانون خراب ہے تو 10 سال میں قانون تبدیل کیوں نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور خورشید شاہ نے مل کر چیئرمین نیب کا انتخاب کیا اور نیب وزیر اعظم سے ہدایت نہیں لیتا تو خورشید شاہ سارا غصہ ہم پر کیوں نکال رہے ہیں۔
شفقت محمود نے کہا کہ ’نیب صحیح کررہا ہے یا غلط اس کا دفاع کرنا میرا کام نہیں، ہم سب جمہوریت کی بقا کے لیے ایک ہیں لیکن جمہوریت اور پارلیمنٹ بدعنوان افراد کے لیے ڈھال نہیں بنے گی۔
اپوزیشن کی جانب سے کالا قانون کی نعرے بازیوں پر انہوں نے کہا کہ ’بڑی اچھی بات ہے، نیب کو کالا قانون کہہ رہے ہیں، آج نعرے ما رہے ہیں لیکن انہیں اپنے دور حکومت کے گزشتہ 10 سال میں یہ قانون کالا نہیں لگا یا یاد نہیں آیا‘۔
انہوں نے سوال کیا کہ کوئی گرفتار ہو تو کیا قانون سے بالاتر ہو گیا؟
شفقت محمود نے کہا کہ میں ’اپوزیشن سے استدعا کرتا ہوں کہ احتجاج کرنا ہے تو عدالت جا کر کریں، انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے کہ یہ کالا قانون کے نعرے کس کے خلاف لگا رہے ہیں‘۔
شفقت محمود کے بعد اسپیکر اسمبلی نے سابق وزیر اعظم اور پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف کو مائیک دیا۔
سراج درانی کی گرفتاری سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی، راجہ پرویز
سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ آغا سراج درانی کی گرفتاری سے پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، اگر اسپیکر سندھ اسمبلی کےخلاف کوئی شکایت تھی اس کا ایک طریقہ ہے ایسا کیا تھا کہ سراج درانی کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ آغاسراج درانی کی گرفتاری قابل مذمت ہے، پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، اسپیکر کے گھر پر 10 سے 12 گھنٹے تک بغیر اجازت چھاپا مارنا درست نہیں۔
انہوں نے سوال کیا کہ ’اگر اسپیکر کے خلاف کوئی شکایت تھی تو کیا اس پر نیب کا اپنایا گیا طریقہ کار درست تھا؟
بعد ازاں اپوزیشن اراکین نے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے ڈائس کے سامنے احتجاج کیا۔
اپوزیشن کے شدید احتجاج پر اسپیکر قومی اسمبلی نے جمعہ (22 فروری) تک کے اجلاس ملتوی کردیا۔