جعلی اکاؤنٹس کیس: بلاول، زرداری، فریال، مراد شاہ کی نظرثانی درخواستیں مسترد
سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین بلاول بھٹو، نائب چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اور سندھ حکومت کی جانب سے 7 جنوری کو عدالتی حکم نامہ کالعدم قرار دینے سے متعلق دائر نظرثانی کی درخواستیں مسترد کردی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس میں عدالت عظمیٰ کے 7 جنوری کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی اپیلوں پر سماعت کی۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیئے ہیں کہ جعلی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی برآمدگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
مزیدپڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: آصف زرداری اور فریال تالپور کی ضمانت میں 7 جنوری تک توسیع
دوران سماعت آصف علی زرداری کے وکیل لطیف کھوسہ نے آئین کے آرٹیکل184(تھری) کی تشریح کے لیے متفرق درخواست دائر کرتے ہوئے استدعا کی کہ از خود نوٹس لینے کے تحت اختیارات کے تعین کے لیے لارجر بینچ تشکیل دیا جائے۔
انہوں نے موقف اختیار کیا کہ ’ از خود نوٹس کیس میں اپیل کا حق نہ ملنا بنیادی حقوق اور شفاف ٹرائل کے منافی ہے‘۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ عدالت نے کوئی فیصلہ نہیں دیا اس لیے اپیل کا حق کیسے متاثر ہو سکتا ہے؟۔
انہوں نے قدرے برہمی سے کہا کہ ’قلفی اور رکشے والوں کے اکاؤنٹ سے اربوں روپے برآمد ہو رہے ہیں‘۔
دوران سماعت ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے عدالت کو بتایا کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) سے تعاون نہیں کر رہی، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں تو تفتیشی افسران کو سیکیورٹی دینا پڑی، ورنہ تو ان افسران کی زندگیاں خطرے میں تھیں۔
مزید پڑھیں: عدالتی فیصلے پر بلاول بھٹو اور سندھ حکومت کی نظرثانی درخواست
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ عدالت مفروضوں پر کام نہیں کر سکتی ۔ مستقبل کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ نہیں دیا جا سکتا ہے ۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے کہا کہ گواہان کو ہراساں نہ کیا جائے، جس پر رینجرز کی سیکیورٹی مہیا کی گئی۔
لطیف کھوسہ نے کہا کہ کیا فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے تفتیش میں سست روی پر از خود نوٹس لیا جاسکتا ہے؟
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اربوں روپے کا معاملہ ہے جو کسی قلفی والے اور رکشے والے کے اکاؤنٹ سے برآمد ہورہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) قانون کے مطابق مقدمے کی کارروائی دوسرے شہر منتقل کرنے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اگر آپ عدالت کے موقف سے متفق نہیں تو یہ نظر ثانی کی وجہ نہیں بن سکتی۔
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگلا اعتراض یہ ہے کہ جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بننی چاہیے؟ جے آئی ٹی معاملے پر نواز شریف کی نظر ثانی درخواست مسترد ہوچکی ہے، اس مقدمے کے حقائق نواز شریف کے مقدمے سے مختلف نہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر قانون طے ہوچکا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بنیادی طور پر تو فالودے والے کو درخواست دائر کرنی چاہیے تھی کہ آپ میرے پیسے کہ بارے میں کیوں اتنی تفتیش کررہے ہیں، جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ انکوائری کی بنیاد پر مقدمہ نیب کو بھجوایا گیا، آصف زرداری کہتے ہیں میرے پیسے ہی نہیں تو ان کا کیا تعلق ہے، یہ مقدمے کی دوبارہ سماعت نہیں۔
اس موقع پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میں اس لیے لارجر بینچ کی استدعا کررہا ہوں کیونکہ اس مقدمے کے بہت سارے پہلو تشریح طلب ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فاروق ایچ نائیک بہت سے پہلوؤں پر بحث کر چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جعلی اکاؤنٹس سے اربوں روپے کی برآمدگی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، میں نے ایک دوست سے پوچھا ایک ارب ہوتا کتنا ہے، میرے دوست نے کہا کہ ایک ارب ڈالر اگر اکاؤنٹ میں ہوں تو آپ 337 سال روزانہ 14 لاکھ روپے خرچ کر سکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس: اومنی گروپ کے مالک انور مجید کی نظرثانی درخواست
انہوں نے مزید ریمارکس دیئے کہ آپ کہتے ہیں سارا ملک خاموش ہو جائے، آپ کہتے ہیں میرے اکاؤنٹ نہیں ہیں تو مسئلہ کیا ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ آپ پر الزام لگا تفتیش ہوگی، آپ بری ہوگئے تو خوشی خوشی جائیں، پورا ملک مطمئن ہو جائے گا، اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ اگر آپ تمام کیسز میں سست روی کا نوٹس لیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اس سوال پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے، ابھی آپ کے خلاف ریفرنس فائل نہیں ہوا، شاید کچھ نہ ملے تو ریفرنس فائل نہ ہو، جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کی ہمشیرہ کو روزانہ اسلام آباد طلب کیا جاتا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے موکل کو ریکارڈ مہیا کرنے کے لیے سیکڑوں خط لکھے گئے، آپ کے موکل نے ریکارڈ مہیا نہیں کیا، جس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ یہ جھوٹ ہے، جان بوجھ کر معاملے کو بڑھایا گیا، جہانگیر ترین نے مانا کہ نوکروں کے نام پر اکاؤنٹ کھول رکھے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اس کا مطلب ہے کہ غلطی کو چلنے دیا جائے، اس موقع پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ نیب نے بینکنگ کورٹ کراچی کو مقدمے کی اسلام آباد منتقلی کی درخواست کی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب قانون کے تحت مقدمہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوسکتا ہے، اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ لیکن آپ کے آرڈر سے میرے لیے تمام دروازے بند ہوگئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی آپ کے موکل ملزم بنے نہیں آپ پتہ نہیں کیوں یہ دلائل دے رہے ہیں، ابھی ریفرنس فائل نہیں ہوا، اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ بینکنگ عدالت کراچی میں مقدمہ چل رہا ہے نیب کیسے تفتیش کرسکتی ہے، جس پر جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ یہ وائٹ کالر کرائم کا مقدمہ ہے کوئی فوجداری مقدمہ نہیں۔
دوران سماعت ملزمان کے وکیل لطیف کھوسہ نے ایک مقدمے کی نظیر پیش کی جس میں آصف سعید کھوسہ بطور وکیل پیش ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے تفتیش میں کوئی مداخلت نہیں کی، اس پر لطیف کھوسہ کے کہا کہ تفتیش میں مداخلت ہوئی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر اداروں پر قبضہ کرلیا جائے تو ہم بے بس نہیں ہیں، اس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کسی بھی ادارے سے تفتیش کے لیے مدد لے سکتا ہے۔
مزید پڑھیں: بلاول، مراد علی شاہ کے نام 'ای سی ایل' سے نکال دیئے جائیں، سپریم کورٹ
لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ اگر ایف آئی اے اتنی نالائق ہے تو اس پر پابندی لگا دیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کیسے اپنے لیے تفتیش کار کا انتخاب کر سکتے ہیں، قانون اپنا رستہ خود بنائے گا، اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں تفتیش کار منتخب نہیں کرنا چاہتا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ 7 جنوری کے فیصلے میں آپ کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے گئے ہیں، اس پر ملزمان کے وکیل نے کہا کہ ہمارے ہاں کبھی از خود نوٹس بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے کبھی بہت کم، از خود نوٹس کے اختیار کا کچھ معیار ہونا چاہیے، ازخود نوٹس میں نظرثانی کے معیارات اور ہونے چاہیئں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ آپ کے تمام دلائل قبل از وقت ہیں، اس موقع پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ جے آئی ٹی دہشت گردی کے مقدمات کے سوا نہیں بنائی جاسکتی، جس پر عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اس عدالت کے پاس آئینی اختیار ہے۔
لطیف کھوسہ نے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہا کہ جے آئی ٹی میں انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کو کیوں شامل کیا گیا، بظاہر یہ دباو ڈالنے کا حربہ تھا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ تو کہہ رہے ہیں جے آئی ٹی بننی ہی نہیں چاہیے تھی۔
اس پر لطیف کھوسہ نے کہا کہ آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس (ایم آئی) کو سویلین معاملات میں مداخلت نہ کرنے دیں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ عدالت تمام انتظامی اداروں سے مدد لے سکتی ہے، لطیف کھوسہ نے دلائل میں کہا کہ سرکاری ملازم صرف وہ کام کرسکتا ہے جس کی قانون میں اجازت ہے، یہ عدالت ایسا کام تفویض نہیں کرسکتی جس کی قانون میں اجازت نہیں، میں آپ کی تقریر سے ایک پیرا پڑھنا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ابھی تو اس کی سیاہی خشک نہیں ہوئی آپ نے حوالہ دینا شروع کردیا، میں نے پاناما مقدمے میں وضاحت کی ہے، ہم نے پاناما مقدمے میں از خود نوٹس کا اطلاق اس لیے کیا کہ اداروں پر قبضہ ہوچکا تھا، اس مقدمے میں ایف آئی اے کو تفتیش کرنے نہیں دی جارہی تھی۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جب آپ کہتے ہیں کہ اکاؤنٹ آپ کے موکل کے نہیں تو آپ کو کیا پریشانی ہے، جس پر لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ میرے موکل کے سارے خاندان کو ہراساں کیا جارہا ہے، ان کے نام ای سی ایل پر ڈال دیئے گئے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ای سی ایل کے حوالے سے یہ متعلقہ فورم نہیں، اربوں روپے ادھر ادھر ہوگئے کسی کو تو تفتیش کرنی ہے، اس لیے ہم نے معاملہ نیب کے سپرد کیا ہے۔
اس موقع پر فریال تالپور کے وکیل فاروق ایچ نائیک روسٹرم پر پیش ہوئے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں توقع ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نیا ہوگا، جس پر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ 7 جنوری کا فیصلہ عدالتی اختیارات سے تجاوز ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ کیا جے آئی ٹی کو منی ٹریل کی کھوج لگانے سے منع کر دیا جاتا؟ غیر قانونی رقوم کو مختلف ذرائع سے جائز پیسہ بنانے کی کوشش کی گئی، غیر قانونی پیسے سے جائیدادیں، شیئرز اور بہت کچھ خریدا گیا۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ میں جے آئی ٹی کے اختیار پر بحث کرنا چاہتا ہوں، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ جے آئی ٹی کو صرف جعلی اکاؤنٹس کی تفتیش کے لیے کہا گیا تھا، شاید آپ نے سردار لطیف کھوسہ کے دلائل کی نقل کی ہے، کامہ، فل اسٹاپ اور غلطیاں بھی ایک جیسی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ 'نائیک صاحب مجھے بڑی حیرانی ہے'، یہ تو ایسے ہے کہ زمین کھودیں سونے کے سکوں کا گھڑا نکل آئے، ایک آدمی بھاگتا بھاگتا آئے کہ مجھ سے نہ پوچھیں، آپ کی مؤکل تو کہہ رہی ہیں کہ پیسے ان کے نہیں ہیں، جس پر فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ فریال تالپور ایک خصوصی بچے کی والدہ ہیں، انہیں دن رات اس کی دیکھ بھال کرنی پڑی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے فیصلے میں کیس کے میرٹ پر تو بحث کی ہی نہیں، تمام فریقین متفق تھے کہ معاملہ نیب کو بھجوایا جائے، جسٹس فیصل عرب نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے صرف یہ کہا کہ معاملے کی تفتیش کی جائے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ کراچی سے مقدمہ راولپنڈی منتقل کیوں کیا گیا وجہ سمجھ نہیں آرہی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اسلام آباد میں بھی تفتیش ہو سکتی ہے۔
فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ معاملہ کراچی کا ہے تو تفتیش وہیں ہونی چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایک تھانے دار اپنے تھانے میں کہیں بھی بیٹھ کر تفتیش کر سکتا ہے، نیب کے اختیارات پورے ملک میں ہیں، ہم نے کہا کہ اسلام آباد سمیت کہیں بھی تفتیش ہو سکتی ہے۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ آپ اس مقدمے کو سندھ سے کیوں نکال کر لے آئے ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ شیکسپیئر کا ڈرامہ ہے'much ado about nothing'، جو آپ کی پریشانی ہے وہ اس فیصلے میں نہیں۔
فاروق ایچ نائیک کا کہنا تھا کہ ملزم تو عدالت کا لاڈلہ بچہ ہوتا ہے، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہاں تو ضدی بچہ بنا ہوا ہے بلکہ ابھی تو آپ ملزم بنے ہی نہیں۔
علاوہ ازیں اومنی گروپ کے وکیل منیر بھٹی نے عدالت کو بتایا کہ ان کے موکل کے خلاف مقدمہ ختم ہو چکا ہے، تفتیشی اداروں کو کچھ نہیں ملا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مقدمہ تو ابھی شروع ہی نہیں ہوا، جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے جے آئی ٹی رپورٹ پر کوئی تبصرے نہیں کیا۔
وکیل کا کہنا تھا کہ اومنی گروپ کی شوگر ملوں پر قبضے ہو رہے ہیں، اومنی گروپ کے پاور پلانٹس بند کروا دیئے گئے ہیں، اس لیے 20، 20 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے، اومنی گروپ کے لوگ 15 اگست 2018 سے جیل میں ہیں اور ابھی تک قانونی کارروائی شروع نہیں ہوئی۔
وکلاء کے دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے نظرثانی کی اپیلیں مسترد کر دیں ۔
اُمید ہے سپریم کورٹ نظر ثانی اپیل میں مثبت فیصلہ آئے گا، شیری رحمٰن
اس سے قبل سینیٹر اور پی پی پی کی رہنما شیری رحمٰن نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں پوری اُمید ہے سپریم کورٹ نظر ثانی اپیل میں مثبت فیصلہ آئے گا۔
کیس کا پس منظر
خیال رہے کہ 2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔
یونائیٹڈ بینک لمیٹیڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔
اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔
7 ستمبر کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔
اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔
علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔