کلبھوشن کیس: عالمی عدالت انصاف میں بھارتی وکلا کے دلائل مکمل
عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف کیس کی سماعت کا آغاز ہوگیا ہے جس میں بھارت نے اپنے دلائل پیش کیے۔
بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس کی سماعت ہیگ میں قائم 15 ججوں پر مشتمل عالمی عدالت انصاف میں 18 سے 21 فروری تک کی جائے گی، اس موقع پر اٹارنی جنرل انور منصور پاکستانی وفد کی قیادت جبکہ ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ ایشیا ڈاکٹر محمد فیصل دفتر خارجہ کی نمائندگی کررہے ہیں۔
امریکی خبررساں ادارے ’اے پی ‘ کے مطابق عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو سے متعلق کیس کے دلائل دیتے ہوئے بھارت نے پاکستان پر کلبھوشن یادیو کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔
بھارتی وکیل ہرش سیلو نے اپنے دلائل میں کہا کہ پاکستان کی جانب سے کلبھوشن کے خلاف افراتفری اور جاسوسی کے دعوے حقائق کے منافی ہیں۔
ہیگ میں عالمی عدالت انصاف میں کیس کی سماعت کے آغاز میں سیلو نے کہا کہ کلبھوشن یادیو کا کورٹ مارشل اس مرحلے کے معیار پر پورا نہیں اترتا، اس لیے اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔
انہوں نے ججز سے اصرار کیا کہ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو غیرقانونی قرار دیا جائے اور انسانی حقوق کے تحت ان کی رہائی کا حکم دیا جائے۔
بھارتی وکیل کی جانب سے آج دلائل مکمل کرنے کے بعد پاکستانی وفد کل (19 فروری کو) عالمی عدالت انصاف کے دائرہ سماعت پر دلائل دے گا۔
جس کے بعد 20 فروری کو ایک مرتبہ پھر بھارت کی جانب سے پاکستان کے جواب پر مؤقف پیش کیا جائے گا اور 21 فروری کو پاکستان اپنے حتمی دلائل پیش کرے گا۔
مزید پڑھیں: عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے کی سماعت کیلئے پاکستانی وفد روانہ
یاد رہے کہ ’را‘ کے لیے کام کرنے والے بھارتی نیوی کے حاضر سروس کمانڈر کلبھوشن یادیو عرف حسین مبارک پٹیل کو پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے 3 مارچ 2016 کو غیرقانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوتے ہوئے گرفتار کیا تھا۔
بھارتی جاسوس نے مجسٹریٹ اور عدالت کے سامنے اعتراف کیا تھا کہ کہ انہیں ’را‘ کی جانب سے پاکستان میں دہشت گردی کے لیے منصوبہ بندی اور رابطوں کے علاوہ امن کے عمل اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد 'را' کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔
ویڈیو میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔
بعدازاں اپریل 2017 کو پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے کلبھوشن یادیو کو پاکستان کی جاسوسی، کراچی اور بلوچستان میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہونے پر سزائے موت سنانے کا اعلان کیا گیا تھا، جس کی توثیق 10 اپریل کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی عدالت انصاف: کلبھوشن یادیو کیس سماعت کیلئے مقرر
بھارت نے 9 مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی تھی، اور درخواست کی تھی کہ آئی سی جے پاکستان کو بھارتی جاسوس کو پھانسی دینے سے روکے۔
عالمی عدالت انصاف میں کی گئی درخواست میں بھارت نے پاکستان پر ویانا کنونشن کی خلاف ورزی کا الزام لگایا گیاتھا کہ ویانا کنونشن کے مطابق جاسوسی کے الزام میں گرفتار شخص کو رسائی سے روکا نہیں جاسکتا۔
بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہیں کرسکا تھا۔
خیال رہے کہ 13 دسمبر 2017 کو کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھارت کی شکایت پر پاکستان کی جانب سے عالمی عدالت انصاف میں جوابی یاد داشت جمع کرائی گئی تھی۔
جس کے بعد گزشتہ برس 18 مئی کو عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کردی ہے۔
مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: پاکستان نے عالمی عدالت میں تحریری جواب جمع کرا دیا
واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں پر اب تک پاکستان اور بھارت کی جانب سے 2،2 جوابات داخل کروائے جاچکے ہیں ۔
تاہم بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی بحریہ سے کب اور کس طرح ریٹائر ہوا، کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔
علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ کلبھوشن یادیو کے پاس جعلی شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔
یاد رہے کہ دسمبر 2017 میں پاکستان نے کلبھوشن کے لیے ان کی اہلیہ اور والدہ سے ملاقات کے انتطامات کیے تھے۔
یہ ملاقات پاکستان کے دفترِ خارجہ میں ہوئی جہاں کسی بھی بھارتی سفیر یا اہلکار کو کلبھوشن کے اہلِ خانہ کے ساتھ آنے کی اجازت نہیں تھی۔
مذکورہ ملاقات کے دوران کلبھوشن یادیو نے اپنی اہلیہ اور والدہ کے سامنے بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے جاسوسی کا اعتراف کیا تھا، جسے سن کر دونوں خواتین پریشان ہوگئی تھیں۔