پی ٹی آئی کی حکمرانی میں پارلیمنٹ کے ابتدائی 6 ماہ کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین کے عہدے پر حکومتی اور حزب اختلاف کے درمیان غیر ضروری کشمش کی وجہ سے بھی رکھا جائے گا۔ جب پی ٹی آئی چیئرمین نے گزشتہ دو اسمبلیوں سے چلی آ رہی قائد حزب اختلاف کو حکومت وقت کی رضامندی کے ساتھ پی اے سی چیئرمین بنانے کی روایت کے مطابق قائد حزب اختلاف شہباز شریف کو معزز پی اے سی کے چیئرمین منتخب کرنے سے انکار کیا تو قومی اسمبلی تقریباً مفلوج ہوگئی اور قائمہ کمیٹیوں کا قیام تاخیر کا شکار ہوا۔
مشترکہ حزب اختلاف، بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے احتجاج کیا، واک آوٹس کیے اور عوامی سطح پر یہ اعلان کیا کہ جب تک پی اے سی کا عہدہ قائد حزب اختلاف کو نہیں دیا جاتا تب تک وہ اسمبلی کی کارروائیاں چلنے نہیں دیں گے۔ بالآخر پی ٹی آئی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹی اور قائد حزب اختلاف کو متفقہ طور پر پی اے سی کا چیئرمین منتخب کرلیا۔
قومی اسمبلی کو اپنے ابتدائی 6 ماہ کے دوران قائمہ کمیٹیوں کے قیام میں ہونے والی غیر معمولی تاخیر کا تجربہ بھی ہوا۔ اسمبلی ضابطوں کے مطابق وزیراعظم کے انتخاب کے بعد 30 دنوں کے اندر قائمہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں لانا ہوتا ہے جبکہ ایک ماہ کے اندر اندر ان کے چیئرپرنسز کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ کمیٹیوں کا قیام 17 ستمبر 2018 تک عمل لانا چاہیے تھا جبکہ ان کے چیئرپرنسز کو 17 اکتوبر تک منتخب کیا جانا تھا۔
بالخصوص پی اے سی کے چیئرمین کے عہدے پرہونے والے تنازع کی وجہ سے تقریباً 5 ماہ کی تاخیر کے بعد 5 فروری 2019 کو قائمہ کمیٹیوں کا قیام عمل میں آیا۔ گزشتہ اسمبلی وزیراعظم کے انتخاب کے بعد 30 دنوں کے اندر کمیٹیوں کو قائم کرنے میں کامیاب رہی تھی، البتہ انہیں فعال بنانے کے لیے مزید 2 ماہ کا وقت لگا تھا۔
میڈیا رپورٹس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ قومی اسمبلی نے ابتدائی 6 ماہ کے دوران اپنے پانچ سالہ اسٹریٹجک پلان کی تیاری پر توجہ دی جو کہ ایک خوش آئند قدم ہے۔
بدقسمتی سے ماضی کے ایسے دو پلانز پر مؤثر انداز میں عمل درآمد نہیں ہوا اور نہ ہی کسی پیش رفت کی باقاعدگی کے ساتھ رپورٹس منظر عام پر آئیں۔
اسپیکر کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ نئے پلان میں ذاتی طور پر دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب اس نئے پلان میں نہ صرف وقتاً فوقتاً عمل درآمد رپورٹس مرتب کرنے اور انہیں وسیع پیمانے پر فراہم کرنے کا نظام شامل ہونا چاہیے بلکہ اس میں پارلیمانی بجٹ سازی کے عمل کو بہتر بنانے جیسی انتہائی مطلوب اصلاحات لانے پر بھی زور دیا جائے۔
حکمراں جماعت کی ابتدائی 6 ماہ کے دوران پارلیمانی کارکردگی کے حوالے سے ایک سب سے اہم معاملہ پی ٹی آئی قیادت میں شامل جارحانہ اور صلح جو رویہ رکھنے والے افراد کے درمیان ایک وقت سے جاری اختلاف محسوس ہوتا ہے۔
اول الذکر میں شامل افراد جارحانہ طریقے کو ترجیح دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ موخر الذکر میں سب سے پہلے تو اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، اس کے علاوہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور وزیر دفاع پرویز خٹک، جیسے تجربہ کار اراکین پارلیمنٹ شامل ہیں جو ایوان میں پرسکون کارروائیوں کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکنہ حد تک حزب اختلاف کے مؤقف کے لیے گنجائش نکالنا چاہیں گے۔
شیخ رشید کی جانب سے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کی مہربانی سے ’شہباز شریف کو کٹھن وقت دینے‘ کے لیے پی اے سی رکنیت کے لیے کوششیں اور شہباز شریف کو پی اے سی چیئرمین کے عہدے سے ہٹانے کی ان کی ’کوششیں‘ ایک طرف ہیں تو دوسری طرف ان اقدام پر اسپیکر کی ہچکچاہٹ اور دیگر پی ٹی آئی اراکین پارلیمنٹ کی مخالفت ہے، یہ سب دو مخالف رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان میں سے جو رحجان غالب آیا وہی یہ فیصلہ کرے گا کہ آنے والے دنوں میں پارلیمٹ کس طرح کام کرے گی۔
یہ مضمون 17 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔