پارلیمنٹ کے ابتدائی 6 ماہ


پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اپنے ابتدائی 6 ماہ مکمل کرنے کے قریب ہے لیکن جس قومی اسمبلی نے اس حکومت کو منتخب کیا وہ 12 فروری کو 6 ماہ کا سنگ میل عبور کرچکی ہے۔
جب حکومت اور پارلیمنٹ اس قسم کے سنگ میل عبور کرتی ہیں تو اس موقعے پر ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کا لوگوں اور میڈیا میں بڑھتا ہوا رجحان دیکھ کر کافی خوشی ہوتی ہے۔ حکومت نے 100 دن مکمل ہونے پر اپنی کارکردگی کے حوالے سے عوامی سطح پر گفتگو اور ابتدائی 6 ماہ کے دوران اپنی کارکردگی کی چند تفصیلات فراہم کرکے اس قسم کے جائزوں کا سلسلہ شروع کیا۔
جس جوش و جذبے کے ساتھ حکومت اور اس کے مختلف وزرا کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا تھا افسوس کے ساتھ پارلیمنٹ کے معاملے میں ہمیں وہ بات محسوس نہیں ہوئی۔
اگر ہر پارلیمنٹ ہر تھوڑے عرصے بعد اپنی کارکردگی کا جائزہ لیتی رہے اور ایوان میں کارکردگی رپورٹ پر مباحثہ کرے تو یہ ایک اچھا خیال ثابت ہوسکتا ہے۔ اس طرح عوام کی آگاہی اضافہ ہوگا اور پارلیمنٹ کی کارروائیوں میں ان کی دلچسپی بھی بڑھے گی۔
موجودہ اسمبلی نے اپنے ابتدائی 6 ماہ میں 7 اجلاس بلائے جبکہ گزشتہ اسمبلی نے اس عرصے میں 6 اجلاس بلائے تھے۔
موجودہ اسمبلی کی اجلاسوں کی کارروائیاں 59 دنوں تک چلیں، جبکہ گزشتہ اسمبلی کی اجلاسوں کی کارروائیاں تھوڑے فرق کے ساتھ 65 دنوں تک چلی تھیں۔
موجودہ اسمبلی میں پانچ حکومتی بل متعارف کروائے گئے جن میں سے 4 منظور کرلیے گئے جبکہ گزشتہ اسمبلی میں ابتدائی 6 ماہ کے دوران 3 حکومتی بل متعارف کروائے گئے تھے جن میں سے صرف ایک ہی منظور کیا گیا تھا۔
یہاں تک کہ وزیر اعظم کی اوسط حاضری (19 فیصد) بھی اپنے سابق ہم منصب شاہد خاقان عباسی جتنی ہے تاہم اس میں مزید کمی کے رجحان کا اشارہ ملتا ہے کیونکہ ان کی اپنے ابتدائی 100 کے آخر تک ان کی حاضری 29 فیصد بنی تھی۔
تاہم پارلیمنٹ کے ابتدائی 6 ماہ کو ان اعداد و شمار کی وجہ سے نہیں بلکہ پی ٹی آئی اور حزب اختلاف کے درمیان جاری تکرار کے تلخ تجربے کی وجہ سے یاد رکھا جائے گا۔ یہ تلخی بڑی حد تک پارلیمانی ضابطوں اور آداب کی متعین کردہ حدود پار چکی ہے۔
یہ حدود اسمبلی میں دونوں اطراف کے اراکین کی جانب سے پار کی گئی ہیں، پی ٹی آئی وزرا اور ممبر قومی اسمبلی نے معقول راستہ اپنانے اور تناؤ کو ختم کرنے کے بجائے کبھی کبھی پارلیمنٹ کے اندر محاذ آرائی کو مزید ہوا دی حالانکہ کارروائیوں میں پڑنے والے خلل سے عام طور پر حزب اختلاف کی نسبت حکمراں جماعت کو زیادہ نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔
وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے تو سینٹ چیئرمین سے بھی زبردست بحث شروع کردی، جس پر سینٹ چیئرمین نے بقیہ اجلاس میں ان کی شرکت پر پابندی عائد کردی، چونکہ فواد چوہدری وفاقی حکومت کے باضابطہ ترجمان ہیں اس لیے یہ ایک بہت ہی غیر معمولی اور انتہائی سخت اقدام تھا۔ فواد چوہدری نے اگلے سینٹ اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور سینٹ چیئرمین سے معافی طلب کی، جو کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اور غیر معمولی پیش رفت تھی۔