واضح رہے کہ ولی عہد کو گزشتہ روز پاکستان آنا تھا تاہم ان کی آمد میں نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک دن کی تاخیر کی گئی۔
اسلام آباد کی جانب سے اس دورے کو تاریخی قرار دیا گیا ہے اور توقع ظاہر کی جارہی ہے کہ یہ دورہ 21 ارب ڈالر سے زائد کی مفاہمتی یادداشتوں پر دستخط سے پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔
وزیرخزانہ اسد عمر نے سعودی ولی عہد کی آمد سے قبل ہی ٹویٹر میں جاری بیان میں کہا کہ 'سعودی وزیر توانائی، صنعت اور معدنی وسائل خالد الفلاح اور ان کے وفد سے اجلاس ہوگیا'۔
اجلاس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'اربوں ڈالر مالیت کے منصوبوں کی وسیع سرمایہ کاری پر تبادلہ خیال ہوا اور مفاہمتی یادداشت پر بعد میں دستخط ہورہے ہیں'۔
حکومت ہی نہیں اپوزیشن کی جانب سے بھی سعودی ولی عہد کے دورے کا خیر مقدم کیا گیا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے بھی خوش آمدید
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے اپنے بیانات میں سعودی ولی عہد کو خوش آمدید کہا۔
سعودی ولی عہد کے لیے ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاؤس میں علیحدہ علیحدہ 2 استقبالیہ تقاریب کا انتظام کیا گیا ہے جس کے بعد محمد بن سلمان کی صدر عارف علوی اور وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات ہوگی۔
سعودی ولی عہد چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کریں گے اور پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وہ بھارت اور چین روانہ ہوں گے۔
یاد رہے کہ محمد بن سلمان نے 2016 میں بھی پاکستان کا دورہ کیا تھا، اس وقت وہ سعودی عرب کے وزیر دفاع تھے، اس مختصر دورے میں انہوں نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات کی تھی اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کو مزید مستحکم کرنے کا اعادہ کیا تھا۔