دنیا

برطانیہ اور روس کے ایک سال بعد مذاکرات

میونخ میں برطانیہ کے یورپی وزیر ایلین ڈینکن اور روس کے ڈپٹی وزیر خارجہ ولادی میر ٹیٹو نے سائیڈ لائن ملاقات کی۔

جرمنی میں روس اور برطانیہ کے جونیئر وزرائے خارجہ کی ملاقات کو سرد مہری کے خاتمے اور ’نئے سفارتی تعلقات‘ کی ابتدا کے تناظر میں خوش آئند سمجھا جارہا ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق لندن کی وزارت خارجہ کے مطابق میونخ سیکیورٹی کانفرنس میں برطانیہ کے وزیر ایلین ڈینکن اور روس کے پہلے ڈپٹی وزیر خارجہ ولادی میر ٹیٹو نے سائیڈ لائن ملاقات کی۔

یہ بھی پڑھیں: سابق روسی جاسوس کی 33 سالہ بیٹی محفوظ مقام پر منتقل

خیال رہے کہ گزشتہ برس 4 مئی کو سابق روسی جاسوس سرگئی اسکرپال پر روس کے ہی تیار کردہ اعصاب شل کر دینے والے زہر 'نووی چوک' سے حملہ کیا گیا تھا، جس کے بعد ماسکو اور لندن کے درمیان ’سفارتی تعلقات‘ شدید متاثر ہوئے تھے۔

برطانیہ کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ ’برطانوی وزیر نے ملاقات میں زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان خلیج وسیع ہے اور روس کو ذمہ دارانہ عالمی پارٹنرز کی حیثیت سے رویہ اختیار کرنا چاہیے‘۔

برطانوی وزیر نے اپنے ردعمل کا اظہار ٹوئٹر پر بھی کیا جہاں دونوں رہنماؤں کی مشترکہ فوٹو شائع کی گئی۔

مزیدپڑھیں: روسی جاسوس کے قتل کی کوشش،’صدر پوٹن اصل قصوروار ہیں‘

انہوں نے کہا کہ ’تاہم روس کے ساتھ مختلف امور پر تعلقات کے لیے دروازے کھلے ہیں، ہم اپنے اتحادیوں کے ساتھ کھڑے رہیں گے اور ماسکو سے امید کرتے ہیں کہ وہ عالمی نظام کے وضع کردہ قوانین کی پاسداری کرے‘۔

دوسری جانب روس کی نیوز ایجنسی نے ’سفارتی ذرائع‘ کا حوالہ دیا جس میں مذاکرات سے متعلق برطانوی وزارت خارجہ کے خلاف ’سخت‘ رویہ اختیار کیا گیا۔

اس میں کہا گیا کہ ’جو کچھ (مذاکرات سے متعلق) لندن میں شائع ہوا اس میں ’زبان‘ اور ’مواد‘ملاقات سے متضاد ہے‘۔

ذرائع کے مطابق ’برطانیہ کی جانب سے روس پر’مذاکرات کے لیے زور دیا گیا‘۔

واضح رہے کہ برطانیہ نے سابق روسی ایجنٹ کو زہر دینے کے واقعے میں روس کے صدر ولادی میر پوٹن کو ’اصل‘ قصور وار ٹھہراتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں معاملہ اٹھانے کا فیصلہ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی ادارے کی سابق روسی جاسوس کو زہر دیئے جانے کی تصدیق

وزیر سیکیورٹی بین ویلس نے کہا تھا کہ ’ولادی میر پوٹن پر زہر دینے کی تمام تر ذمہ داری عائد ہوتی ہے‘۔

انہوں نے کہا تھا کہ ’آخر کار وہ روس کے صدرہیں اور حکومت میں فنڈز اور ملٹری انٹیلی جنس کو وزارت دفاع کے ذریعے حکم موصول ہوتے ہیں‘۔