افغانستان میں ایک ہزار امریکی فوجیوں کی کمی کا امکان
مسقط: امریکی جنرل نے کہا ہے کہ اگرچہ ابھی امن سے متعلق مذاکرات تک نہیں پہنچے ہیں لیکن نئے کمانڈر کی کارکردگی ڈرائیو کے حصے کے طور پر افغانستان میں امریکا اپنی فوجی استطاعت کو کم کرسکتا ہے اور یہ کمی ایک ہزار فوجیوں تک ہوسکتی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ کانگریس میں مذاکرات کار کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت میں پیش رفت کو دیکھتے ہوئے افغانستان سے امریکی فورسز کا ارادہ ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’عظیم قومیں کبھی نہ ختم ہونے والی جنگیں نہیں لڑتیں‘۔
تاہم امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ جنرل جوزف ووٹل نے کہا تھا کہ افغانستان میں موجود 14 ہزار امریکی فوجیوں میں سے کچھ کی کمی کے فیصلے کا امن مذاکرات کی ان کوششوں سے تعلق نہیں۔
مزید پڑھیں: امریکا افغانستان سے نکل جائے یا سوویت یونین کی طرح شکست کا سامنا کرے، طالبان
انہوں نے کہا کہ یہ آرمی جنرل اسکاٹ ملر کی کوششوں کا حصہ تھا، جو ستمبر میں 17 سال سے زائد اس جنگ کو دیکھ رہے ہیں تاکہ امریکی وسائل کا بہتر استعمال کیا جاسکے۔
جوزف ووٹل نے عمان کے دورے کے دوران ایک انٹرویو میں کہا کہ ’یہ کچھ ایسا ہے، جو انہوں نے وہاں شروع کیا اور یہ دیکھ رہے ہیں ہم کس طرح موثر اور فعال ہوسکتے ہیں‘۔
جنرل اسکاٹ ملر کا فیصلہ برسوں بعد اس تبدیلی کو ظاہر کرتا ہے جس میں امریکی صدر کے طریقہ کار کے تحت امریکی فوجیوں کی تعداد میں کمی کو روکنے کی کوشش کی گئی تھی۔
ابھی یہ واضح نہیں کہ فوج کی تعداد میں کمی کب تک ہوگی، تاہم پینٹاگون کا کہنا تھا کہ افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد تقریباً 14 ہزار ہے لیکن اس تعداد میں اتار چڑھاؤ کرسکتے ہیں۔
دوسری جانب ایک سینئر مغربی سفارتکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم اس معاملے کو بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں‘۔
یہ بھی پڑھیں: کبھی افغانستان چھوڑنے کی تجویز نہیں دی، امریکی جنرل
انہوں نے کہا کہ ’یہ واضح ہے کہ جنرل اسکاٹ ملر کی خواہش کو کارگر بنانے کے لیے اعداد و شمار پر پہلے سے ہی اثر انداز ہوا جارہا ہے‘۔
جنرل جازف ووٹل سے جب سوال کیا گیا کہ آیا اسکاٹ ملر کارکردگی ڈرائیو کے تحت افغانستان سے ایک ہزار سے زائد فوجیوں کی کمی کرسکتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ’وہ ایسا کرسکتے‘۔
امریکی کمانڈر کا کہنا تھا کہ کچھ فوجیوں کو ’افق پر‘ منتقل کیا جاسکتا ہے جو بیرون ملک سے اب بھی جنگ کی کوششوں کی حمایت کر رہے ہیں اور یہ امریکا کی طویل ترین جنگ میں خطرات کو بھی کم کرے گا۔