مُٹھی بھر چلغوزے اور گیس کا بل


صوفی کہتا ہے کہ ‘کیہہ جاناں میں کون؟ مگر ہمارے پڑوسی راجہ صاحب اس بات پر زور دیتے ہیں کہ معقول افراد کے پاس یہ جاننے کے طریقے ہوتے ہیں کہ ایک شخص کی کتنی قدر و قیمت ہے، اس کے قبضے میں کون سے خزانے ہیں اور وہ واقعات سے بھرپور اپنی معاشی زندگی میں آنے والے کسی خاص لمحے میں کس حد تک بلاہچکچاہٹ، باآسانی یا ناگزیر طور پر اس خزانے کا کچھ حصہ خرچ کرسکتا ہے۔
راجہ صاحب ایک مقامی پلمبر کی مثال دیتے ہیں۔ پلمبر کے پاس ایسا کوئی سائنسی طریقہ نہیں ہوتا جس سے یہ پتہ لگایا جاسکے کہ اسے ملنے والے کام کا کون سا کلائنٹ کتنا پیسہ ادا کرے گا۔ اس کے بجائے وہ ایسے اشارے استعمال کرتا ہے جو ہمیشہ اتنے سادہ نہیں ہوتے کہ جن کی مدد سے کام کی قیمت کا اندازہ لگانا آسان ہوجائے۔
مثال کے طور پر، جہاں اس کی دکان واقع ہے وہاں کے رہائشیوں سے وہ دیگر رہائشی علاقوں کی نسبت کم پیسے طلب کرتا ہے۔ اس کی اہم وجہ یہ ہے کہ جہاں وہ کام کرتا ہے وہاں کے مقابلے میں پڑوسی رہائشی علاقوں میں بڑے بڑے گھر ہیں اور وہاں رہنے والے زیادہ پیسے ادا کرنے کی استطاعت بھی رکھتے ہیں۔
کون کتنے پیسے دے سکتا ہے، درحقیقت یہی وہ فارمولہ ہے جو قیمت کے بجائے عام خرید اور خدمات کی قیمت کا فرق بتادیتا ہے۔ یہ ایک ایسے فارمولے کو جنم دیتا ہے جسے ہمارے قابلِ احترام ریاستی افسران کے الفاظ، کام اور پالیسیوں میں اپنے منطقی انجام تک لے جایا جاتا ہے۔
سوئی گیس کے ان باسز کی حالیہ سرگرمی پر نظر ڈالیے جو ہمیں یہ یاد دلاتے ہیں کہ سردیوں میں ہاٹ باتھ سے ملتی جلتی کوئی بھی چیز اپنے پاس رکھنا عیاشی ہوتی ہے، یا پھر ایک استطاعت سے باہر اور قابلِ اجتناب لگژری ہوتی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جہاں پر آپ اس بات پر غور و فکر کرنا چھوڑ دیتے ہیں کہ کس طرح تعداد میں بڑھتے ہوئے ماہرین خالصتاً لوگوں کی عادات کی بنیاد پر ان کی درجہ بندی کرنے میں مصروفِ عمل ہیں۔
اس کام کا یہی طریقہ کار ہے کیونکہ مختلف مواقع پر ماہرین ہمیں یہ بتاتے چلے آ رہے ہیں کہ ان کے پاس اتنا مناسب تعداد میں ڈیٹا ہی حاصل نہیں کہ ٹھیک ٹھیک طور پر یہ بتایا جاسکے کہ ایک پاکستانی، اگر وہ غیر عیاش کے زمرے میں آتا ہے تو غلط طریقوں سے بننے والا، کس قدر امیر ہے کہ جو اپنی دولت کو چھپانے کی طرف مائل ہوسکتا ہے۔
ان اعداد و شمار کی غیر موجودگی میں، ماہرین بڑی سہولت کے ساتھ اس پرانے میٹر ریڈر کا طریقہ اپناتے ہیں، جس کے پاس تازہ ریڈنگ ریکارڈ کرنے کے لیے مختلف مقامات پر جانے کا وقت نہیں ہوتا ہے اور وہ ماضی کے اوسط اعداد کی بنیاد پر بل میں اضافہ کرکے نیا بل بنا دیتا ہے۔
ماہرین نے گزشتہ موسمِ سرما کے بلوں کا جائزہ لیا اور فیصلہ کیا کہ دیگر کے مقابلے میں نسبتاً بڑے صارفین سے زیادہ پیسے وصول کیے جائیں۔ وہ صارفین جنہیں زیادہ پیسے ادا کرنے کے لیے کہا گیا ہے ان کا زیادہ پیسے کمانے والوں کی درجہ بندی میں شامل ہونا ضروری نہیں، بلکہ ان کا جرم زیادہ گیس استعمال کرنا ہے، اور یہی جرم انہیں ایک ایسے مراعت یافتہ درجے میں شامل کردیتا ہے جس کے بارے میں حکومت اور آئی ایم ایف کو پتہ ہوتا ہے کہ وہ پیسے دینے کی استطاعت رکھتے ہیں۔
لیکن ہاں سوئی گیس افسران اس شخص کے لواحقین کو حالیہ مہینے کا بل بھیج کر یہ معلوم کرسکتے ہیں۔