ایسا ہی فارمولہ دیگر جگہوں پر استعمال کیا جاتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ عوامی اقتصادی سرگرمی گارنٹی کے ساتھ ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ میں وزیر کھڑا ہوتا ہے اور خودساختہ راست بازی اور ایک قبائلی سردار کی نیک نیتی کے ساتھ یہ اعلان کرتا ہے کہ وہ اور اس کی اعلیٰ سطح کی کمپنی میں شامل دیگر افراد جو موبائل فون استعمال کرتے ہیں انہیں ٹیکس کی صورت میں ایک بھاری رقم ادا کرنی ہوگی۔ ان کے الفاظ قانون بن جاتے ہیں اور کابینہ میں شامل ہر شخص اپنے ساتھی کے لیے خوش ہوتا ہے کیونکہ اس نے یہ طریقہ ایسے وقت میں نکالا جب اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔
وقتاً فوقتاً لوگ اس فارمولے کو مات دینے کے لیے اپنے تھوڑے نئے قسم کے طریقے پیش کرتے ہیں لیکن طاقتور نظام کے آگے ان کی کامیابی بہت محدود ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی مندرجہ ذیل کیس میں بھی ہوا: متعدد بیماریوں سے دوچار عمر کے 60 کے پیٹے میں محمود اپنے بیٹے کو بستر کے قریب بلاتے ہیں اور اسے اپنی ایک خواہش کی تکمیل میں مدد کرنے کے لیے کہتا ہے۔
والد نے چلغوزے کھانے کی شدید طلب کا اظہار کیا جو کوششوں کے بعد بھی مٹ نہیں رہی۔ جب والد کی جانب سے بے ہوشی کی حالت میں بار بار اس خواہش کا اظہار ہوا تو بیٹا موٹر سائیکل پر سوار ہوکر قریب واقع خشک میوہ جات کی دکان پر پہنچا اور وہاں سے اپنے والد کی شدید طلب کو پورا کرنے کے لیے مٹھی بھر چلغوزے اور صنوبری بادام لے آیا۔ یہ اس بیمار شخص کی آخری خواہش ثابت ہوئی۔ چلغوزے کھانے کی طلب پورا کرنے کے بعد وہ کوئی اور چیز نہ کھا سکے اور چند دنوں بعد انتقال کرگئے۔
اس ثبوت کے ساتھ آپ محمود کو اقتصادی اعتبار سے کس طرح بیان کریں گے؟ ان کا انتقال ڈاکٹرز کی نجی نگہداشت میں ہوا، جو ہم میں سے زیادہ تر کی استطاعت سے باہر ہے۔ وہ اس اعتبار سے خوش قسمت تھے کہ وہ اپنے اہلِ خانہ کے درمیان دنیا سے رخصت ہوئے اور مرنے سے قبل خشک میوہ جات کھانے کو ملے جو مہنگے ہونے کے باعث پاکستان کی ایک بڑی اکثریت کی پہنچ سے باہر ہیں۔
ان اعشاریوں کی بنیاد پر ماہرین شاید انہیں ایک مراعت یافتہ انسان کے درجے میں رکھیں جو زندگی میں آخری وقت تک اپنی چند پرانی مہنگی عادات کو بنا ترک کیے اس دنیا سے کافی حد تک پُرسکون انداز میں رخصت ہوئے۔
تاہم ان کی زندگی کا اگر گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو ایک یکسر ہی مختلف تصویر نمودار ہوتی ہے۔ ایک ایسے شخص کی تصویر جو نہ زندگی میں دولت کما سکا اور نہ ہی وہ پیشہ یا کام اختیار کرسکا جو وہ اپنی زندگی میں اختیار کرنا چاہتا تھا۔
وہ شخص بڑی حد تک خالی ہاتھوں کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوا لیکن شاید ماہرینِ شماریات کی جنوری 2019ء کی ڈائری میں وہ ایک ایسا شخص شمار ہوگا جس کی دسترس میں ایسی زیادہ تر خوشیاں اور سہولیات تھیں جو عام پاکستانی کو میسر نہیں ہوتیں۔ وہ ایک ایسا شخص تھا جس کی عادات کئی کئی محلوں میں پائی نہیں جاتیں اور مقامی پلمبر کے معقول اندازے سے بھی باہر ہے۔
لیکن ہاں سوئی گیس افسران اس شخص کے لواحقین کو حالیہ مہینے کا بل بھیج کر یہ معلوم کرسکتے ہیں۔
یہ مضمون 15 فروری 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔