پاکستان

عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن یادیو کے مقدمے کی سماعت کیلئے پاکستانی وفد روانہ

اٹارنی جنرل انور منصور پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے، عالمی عدالت 2019 کے موسم گرما تک فیصلہ جاری کردے گی۔

اسلام آباد: عالمی عدالت انصاف 18 فروری سے باقاعدہ طور پر بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی سزا کے خلاف کیس کی سماعت کا آغاز کرے گی جس کے لیے پاکستانی وفد جمعہ(آج ) کو ہیگ روانہ ہوگیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس حوالے سے ایک سینئر عہدیدار نے ڈان کو بتایا کہ اٹارنی جنرل انور منصور پاکستانی وفد کی قیادت کریں گے جبکہ ڈائریکٹر جنرل ساؤتھ ایشیا ڈاکٹر محمد فیصل دفتر خارجہ کی نمائندگی کریں گے۔

اس سلسلے میں عالمی عدالت کی جانب سے 18 سے 21 فروری تک ہیگ میں سماعت کا ٹائم ٹیبل مقرر کردیا گیا ہے جس کے تحت بھارت کی نمائندگی کرنے والے ہارش سیلو 18 فروری کو پہلے اپنے دلائل پیش کریں گے، جس کے بعد ملکہ برطانیہ کے وکیل خاور قریشی اسلام آباد کی جانب سے 19 فرروی کو اس کا جواب جمع کروائیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: عالمی عدالت انصاف: کلبھوشن یادیو کیس سماعت کیلئے مقرر

20 فروری کو ایک مرتبہ پھر بھارت کی جانب سے پاکستان کے جواب پر موقف پیش کیا جائے گا اور 21 فروری کو پاکستان اپنے حتمی دلائل پیش کردے گا جس کے بعد توقع ہے کہ عالمی عدالت انصاف 2019 کے موسمِ گرما تک اپنا فیصلہ جاری کردے۔

اس ضمن میں ایک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس بھارتی جاسوس کے خلاف سب سے مضبوط ثبوت اس کا مسلمان نام کے ساتھ بنایا گیا پاسپورٹ ہے، ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ عالمی عدالت کا فیصلہ جو بھی آئے پاکستان اپنے فیصلے پر عملدرآمد کرے گا۔

خیال رہے کہ مارچ 2016 میں کمانڈر کلبھوشن یادیو کو بلوچستان سے پکڑا گیا تھا جس نے بھارتی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالسز ونگ (را) سے وابستگی، بھارت کے لیے جاسوسی اور پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: کلبھوشن کیس: پاکستان نے عالمی عدالت میں تحریری جواب جمع کرا دیا

گزشتہ برس 18 مئی کو عالمی عدالت انصاف نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے کلبھوشن کی پھانسی روکنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد دفتر خارجہ نے آگاہ کیا تھا کہ آئی سی جے کے حکم پر حکومتِ پاکستان نے متعلقہ اداروں کو اس پر عمل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں پر پاکستان 2 جوابات داخل کروا چکا ہے، جس کے تحت عالمی عدالت انصاف میں ویانا کنوینشن کے قونصلر ریلیشن 1963 کے تحت یہ کیس پیش کیا گیا تھا۔

اس سلسلے میں جب عہدیدار سے ایران کی بات سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو نے کچھ عرصے وہاں قیام ضرور کیا تھا لیکن حکومت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ ایران کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں، بھارت اس معاملے میں ایران کو گھسیٹنا چاہتا ہے لیکن ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔

یہ بھی پڑھیں: کلبھوشن یادیو کون ہے؟

یاد رہے کہ بھارت نے دعویٰ کیا تھا کہ کلبھوشن یادیو ایک بے قصور تاجر ہے جسے ایران سے اغوا کرنے کے بعد تشدد کا نشانہ بنا کر زبردستی را ایجنٹ ہونے کا اعتراف کروایا گیا لیکن بھارت اغوا کیے جانے کے کوئی بھی ثبوت پیش نہ کرسکا۔

اسی طرح بھارت یہ ثابت کرنے میں بھی ناکام رہا کہ کہ وہ بھارتی بحریہ سے ریٹائرڈ ہوچکا تھا جبکہ وہ کب اور کس طرح ریٹائرڈ ہوا، بھارت اس بات کی بھی وضاحت نہ کرسکا کیونکہ پکڑے جانے کے وقت کلبھوشن کی عمر 47 برس تھی۔

علاوہ ازیں بھارت کو اس بات کی وضاحت دینے کی ضرورت ہے کہ کلبھاوشن یادیو کے پاس جعلی مسلمان شناخت کے ساتھ اصلی پاسپورٹ کیسے آیا، جس کو اس نے 17 مرتبہ بھارت آنے جانے کے لیے استعمال بھی کیا اور اس میں اس کا نام حسین مبارک پٹیل درج تھا۔

بھارت سے یہ سوالات متعدد مرتبہ کیے گئے حتیٰ کہ خود بھارتی صحافیوں پروین سوامی اور کرن تھاپڑ کی جانب سے بھی یہ سوال اٹھائے گئے لیکن بھارت نے اسے بے بنیاد پروپیگنڈہ قرار دیا۔

بالآخر بھارت نے پاسپورٹ کو جعل سازی قرار دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ برطانیہ کے غیر جانبدار ماہر کی جانب سے پاسپورٹ کو اصلی اور بھارتی حکومت کی جانب سے جاری شدہ قرار دینے کی بات کس طرح غلط ہے۔

یاد رہے کہ نئی دہلی نے آئی سی جے سے مطالبہ کیا تھا کہ پاکستان کو کلبھوشن یادیو کی واپسی کا حکم دیا جائے لیکن عالمی عدالت نے کہا کہ یہ جرائم کی عدالت نہیں جہاں اپیل کی جائے۔

مزید پڑھیں: ’کلبھوشن کیلئے کسی ریلیف کا کوئی امکان نہیں‘

عالمی عدالت نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اگر قونصلر رسائی نہیں دی جائے تو مقامی عدالت سے رجوع کرنا زیادہ موثر ثابت ہوسکتا ہے۔

عہدیدار کا تفصیلات سے آگاہ کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو اور ان کے اہلِ خانہ آئینِ پاکستان کی دفعہ 199 کے تحت ملکی اعلیٰ عدالت سے رجوع کرسکتے تھے لیکن بھارت نے حراست میں لیے جانے کے 14 ماہ اور سزا سنائے جانے کے ایک ماہ بعد اس پر عملدرآمد روکنے کے لیے عالمی عدالت سے رجوع کرلیا۔

ان کا کہنا تھا کہ بھارت اس بات کی وضاحت بھی نہیں دے سکا کہ کیوں پاکستان اور بھارت کے درمیان 21 مئی 2008 کو قونصلر رسائی کےحوالے سے کیا گیا معاہدہ، جسے بھارت نے پیش کیا تھا، اس کی دفعہ 6 کے تحت ریاست کو اختیار دیا گیا کہ قومی سلامتی کے امور میں ملوث شخص کے خلاف اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو سزائے موت سنا دی گئی

اس کے علاوہ بھارت کی جانب سے اس بات کی بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ برطانیہ کے فوجی قوانین کے ماہر کس طرح غلط ہیں جنہوں نے کہا تھا کہ پاکستان کی عدالت عظمیٰ اور ہائی کورٹ فوجی عدالت کی کارروائی پر بہتر اور موثر نظرِ ثانی کرسکتے ہیں۔

خیال رہے کہ بھارت کی جانب سے کیے گئے دعووں کے جواب میں پاکستان نے ’جاسوس کو استثنیٰ‘ دینے اور اس سے ریاست کو درپیش خطرات کے سلسلے میں موجود روایات اور بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے سوالات اٹھائے تھے۔