نقطہ نظر ہمیں تنہا کرنے کی کوششیں مودی کے کشمیریوں پر بدترین مظالم پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو مذاکرات کے لیے کیسی زبردستی ہوسکتی ہے؟ توقیر حسین لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ وزیرِاعظم عمران خان اور فوجی قیادت نے ہندوستان کے ساتھ بہتر تعلقات قائم کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ تاہم ہندوستان کی جانب سے کوئی خاطر خواہ ردِعمل ملتا نظر نہیں آتا، اس کی وجوہات آئندہ عام انتخابات کے علاوہ دیگر بھی ہیں۔ مجھے یہاں وہ بریفنگ یاد آ رہی ہے جو مجھ سمیت چند اہم جنوبی ایشیائی شخصیات کو نریندر مودی کے قریبی مشیر نے اس وقت دی تھی جب مودی کو وزارتِ عظمی کا عہدہ سنبھالے ہوئے ابھی کچھ ہی وقت ہوا تھا۔ میری پاکستانی شناخت سے بے خبر مشیر نے پاکستان کے بارے میں توہین آمیز انداز میں بات کی۔ انہوں نے کہا کہ ’ہم پاکستان کے ساتھ اس طرح کا سلوک برتیں گے جیسے کہ وہ ایک طویل القامت دیوار کے پیچھے موجود ہو۔‘ 4 برسوں سے وہ مشیر بھی وہیں موجود ہے اور ہندوستان کی پاکستان سے متعلق پالیسی بھی وہیں کی وہیں موجود ہے۔ یہ پالیسی ایک طویل عرصے تک کس طرح قائم رہی ہے؟ اس سوال کا جواب ہندوستان میں پالیسی، سیاست اور نظریات کا ایک وسیع منظرنامہ کھول کر سامنے رکھ دیتا ہے۔ 1991ء میں ہونے والی ابتدا سے لے کر اب تک ہندوستان اپنی اقتصادی پیداوار اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے مفید غیر ملکی تعلقات کو مضبوط سے مضبوط کرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس طرح ہمیں یہ بھی واضح ہوجائے گا کہ اس نے بڑی طاقتوں خصوصاً امریکا کے ساتھ کس طرح تعلقات استوار رکھے، جو اس کے معاشی وزن، فوجی صلاحیت اور سفارتی قدوقامت میں اضافے میں باعث بنے۔ مودی نے اس پالیسی میں مزید اضافہ کرکے اس پالیسی اور اس قومی سلامتی کو ہندوستان کی ترجیحات میں مرکزی نکتہ بنا دیا۔ سی پیک کی مخالفت کے ذریعے ایک ہی وقت میں چین کے ساتھ متوازن اور پاکستان کے ساتھ غالب تعلق قائم کرنے کی کوشش سے یہ پالیسیاں ٹھیک اسی طرح ظاہر اور اثراانداز ہوتی ہیں جس طرح ہندوستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات ظاہر ہوتے ہیں۔مودی کا خیال تھا کہ ہندوستان سرحد پار سے مبیّنہ طور پر غیر ریاستی عناصر کے خوف اور عدم استحکام ہونے کے ڈر کے سبب ابھر نہیں سکتا۔ لہٰذا وہ ہاتھ مضبوط کرنے کے لیے امریکا سے تعلقات کو بڑھائیں گے، خاص طور پر اپنا ’رویہ‘ تبدیل کرنے کے لیے استعمال کریں گے اور پاکستان کے حوالے سے شدید مؤقف اختیار کرتے ہوئے جنوبی ایشیا میں امریکی مفادات کو آگے بڑھانے میں مدد کریں گے۔ بلاشبہ چند اہم مقامی محرکات بھی اس کام میں پیش پیش تھے، پاکستان پالیسی تاریخی راشٹریہ سوامیہ سیوک سنگھ کے مسلمانوں، پاکستان اور کشمیر کے بارے میں خیالات کی نمائندگی کرتی ہے۔ جس کے بعد ظاہر ہے کہ یہ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے مؤقف کی بھی عکاسی کرتی ہے۔ جس بی جے پی کی مودی سربراہی کر رہے ہیں وہ وسیع پیمانے پر پسند کی جاتی ہے۔ مارکیٹنگ سے آگاہی اور ڈیجیٹل ٹولز پر مہارت رکھنے والے مودی نے اپنی پارٹی کے روایتی قوم پرستانہ نظریے کو ڈیجیٹل ٹولز اور پُرکشش اقتصادی ایجنڈا اور پاپولزم کے ساتھ جوڑ کر وسیع عوامی حلقوں تک پہنچا دیا ہے۔ جبکہ پاکستان کا مسئلہ تو حسبِ روایت ویسے ہی بی جے پی ووٹرز میں خاصا مقبول ہے، لہٰذا اس سے بھی مدد ملی۔ پاکستان کے ساتھ تناؤ عوام کا دھیان دیگر اہم مسائل سے ہٹانے میں ہمیشہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ لیکن شدت پسندی پر اپنے لب و لہجے کے استعمال اور جنوری 2016ء میں ہونے والے پٹھان کوٹ حملے اور ستمبر 2016ء میں ہونے والے اڑی حملے کے موقعے پر جس انداز میں مودی کھیلے ہیں اس سے نہ صرف ہندوستانی شہریوں سے زبردست جذباتی ردِعمل پیدا ہوا بلکہ ان کی جماعت کو ایک وسیع حلقہ بھی دستیاب ہوگیا۔ اس مسئلے سے مودی کو اپنی فوج کے لیے حمایت حاصل کرنے میں مدد ملی۔ اب چونکہ ہندوستان ابھر چکا ہے تو اس کے فوجی مقاصد بھی ابھر چکے ہیں۔ شدت پسندی تنازع کی وسعت میں اضافہ کرتی ہے اور فوج کے قومی تاثر میں بہتری لاتے ہوئے قومی سلامتی کے تصور کو وسیع کرتی ہے۔ مسئلے کی نوعیت کو بڑھانے کے لیے صرف ایک قابلِ یقین دشمن کی ضرورت ہوتی ہے اور پاکستان کو جس انداز سے دیکھا جاتا ہے اس کی وجہ یہ ایک مناسب انتخاب ثابت ہوتا ہے۔مودی جدید میڈیا میں وژؤل کی طاقت جانتے ہیں۔ اپنی (مودی کی) تقریبِ حلف برداری کے موقعے پر نواز شریف کو دعوت اور دسمبر 2015ء میں نواز شریف کی سالگرہ کے موقعے پر اچانک سے ہوائی سفر کے ذریعے لاہور آمد نے بین الاقوامی سطح بالخصوص واشنگٹن پر ڈرامائی اثرات مرتب کیے۔ اس سے یہ ظاہر ہوا کہ مودی اچھے تعلقات کرنے کے لیے جتنے زیادہ سنجیدہ ہیں پاکستان اتنا ہی اس میں بگاڑ کا خواہاں ہے۔ جو حملے مودی کے خیال کے مطابق سرحد پار سے ہوئے ان پر فوجی ردِعمل سے گریز کرتے ہوئے وہ یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ فوجی ردِعمل کے بجائے مذاکرات کو ترک کرنا اور سارک کانفرنس کو سبوتاژ کرکے توجہ مسلسل پاکستان کے ‘رویے’ پر توجہ مرکوز کروائے رکھی، جبکہ ہندوستان نے اپنے ‘تحمل‘ پر تعریفیں لوٹیں۔چنانچہ اس مسئلے نے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی پاکستان کو تنہا کرنے، عدم توازن کا شکار بنانے اور اس کی سفارت کاری کشمیر تک محدود کردینے کی کوششوں میں مدد فراہم کی۔مودی کے کشمیریوں پر بدترین مظالم پر سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں ہے، تو مذاکرات کے لیے کیسی زبردستی ہوسکتی ہے؟ ہندوستانی پاکستان پالیسی کو مضبوط قیادت کے ہاتھوں میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر ممکن ہوا تو وہ امن کی راہ پر چلیں گے، جس طرح واجپائی کے ساتھ چلے یا پھر اگر ضرورت پڑی تو جنگ کی راہ پر چلیں گے، اس کا دار و مدار باعزم اور فیصلہ کن قیادت پر ہے۔ کیا دوبارہ منتخب ہونے والے مودی پاکستان پر اپنی رائے بدلیں گے؟ اس سب کا انحصار نارملائزیشن سے اجنبیوں اور پاکستان کے درمیان سمجھوتے، اور تناؤ سے مقامی سیاست، کشمیر اور ہندوستان کے علاقائی اور زمینی و سیاسی مفادات کو حاصل ہونے والے فوائد پر ہوگا۔پاکستان کے ایم ایف این اور ٹرانزٹ تجارت پر مؤقف جبکہ پائپ لائن منصوبوں اور وسطی ایشیا کے ساتھ تجارت میں رکاوٹ بننے والی افغانستان کی صورتحال کو مدِنظر رکھیں تو ہندوستان کے لیے کسی قسم کی معاشی ترغیب تو نظر نہیں آئے گی۔ تاہم افغان امن عمل میں پیجھے رہ جانے کے حوالے سے خدشات کو یہاں اہم گردانا جاسکتا ہے۔ اب تک کے پاک بھارت تعلقات میں پاکستان کا ردِعمل ہوسکتا ہے اچھا رہا ہو لیکن اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مودی کی پاکستان پالیسی نے تو ہندوستان کے قومی مقاصد میں مدد فراہم کی لیکن کیا پاکستان کی ہندوستان پالیسی پاکستان کے لیے یہ کام انجام دے رہی ہے یا نہیں؟یہ مضمون 14 فروری 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔ توقیر حسین لکھاری سابق سفیر ہیں اور جارج ٹاؤن اینڈ سائراکس یونیورسٹی سے بطور ایڈجنکٹ فیکلٹی وابستہ ہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔ ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔