سپریم کورٹ نے حسین حقانی کے خلاف میمو گیٹ اسکینڈل کیس نمٹا دیا
سپریم کورٹ نے میمو گیٹ اسکینڈل کیس نمٹاتے ہوئے کہا ہے کہ حسین حقانی کی گرفتاری ریاست کا کام ہے اور اب عدالت عظمیٰ کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال سپریم کورٹ نے امریکا میں مقیم سابق پاکستانی سفیر حسین حقانی کے حوالے سے میمو گیٹ کیس کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا تھا جبکہ حسین حقانی اور کیس میں دیگر فریقین بشمول سابق وزیر اعظم نواز شریف کو نوٹسز جاری کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں: میمو ،حسین حقانی ہی کی تخلیق تھا، تحقیقاتی کمیشن
دوران سماعت چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کرتے ہوئے اسے نمٹانے کا اعلان کردیا۔
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ یہ معاملہ 8 سال سے سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، اس معاملے میں ایف آئی آر درج ہوچکی ہے اور ایک کمیشن 2012 میں معاملے کی رپورٹ دے چکا ہے۔
عدالت نے کہا کہ اصل معاملہ میمو گیٹ کا ہے جو امریکی حکومت کو لکھا گیا اور اب نہ وہ حکومت ہے نہ حسین حقانی سفیر رہے۔
اس موقع پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ بہت حساس معاملہ ہے جس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ درخواست گزار وطن پارٹی کہاں ہے؟ اگر درخواست گزار نہیں آیا تو ہم یہاں کیوں بیٹھے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اسامہ تک کیسے پہنچا: ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ
آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ حسین حقانی پر کچھ الزامات ہیں اور ان کی واپسی ضمنی معاملہ ہے، ان کی گرفتاری اور ٹرائل ریاست کا معاملہ ہے، ریاست چاہے تو حسین حقانی کے خلاف کارروائی کرسکتی ہے لیکن سپریم کورٹ کا اب اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔
انہوں نے کہا کہ کیا ریاست اب بھی میمو گیٹ کا خوف محسوس کرتی ہے؟ کیا ریاست پاکستان، مسلح افواج اور ہمارا آئین اتنا کمزور ہے کہ ایک میمو سے ڈر جائیں؟ یہ اتنے کمزور نہیں ہیں اور اللہ کا کرم ہے یہ بہت مضبوط ملک ہے۔
انہوں نے کہا کہ میمو کمیشن نے اس معاملے پر اپنی رپورٹ بھی دے دی تھی اور اس کی روشنی میں ایف آئی آر بھی درج ہے لہٰذا اب ایف آئی آر پر عمل کرنا ریاست کا کام ہے اور اس کے ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے مقدمہ نمٹانے کا اعلان کردیا۔
حسین حقانی اور میموگیٹ
میموگیٹ اسکینڈل 2011 میں اس وقت سامنے آیا تھا جب پاکستانی نژاد امریکی بزنس مین منصور اعجاز نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں حسین حقانی کی جانب سے ایک پیغام موصول ہوا، جس میں انہوں نے ایک خفیہ میمو اس وقت کے امریکی ایڈمرل مائیک مولن تک پہنچانے کا کہا تھا۔
مزید پڑھیں: امریکا سےمیرے 'روابط' اسامہ کی ہلاکت کی وجہ بنے، حسین حقانی کادعویٰ
یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے لیے کیے گئے امریکی آپریشن کے بعد پاکستان میں ممکنہ فوجی بغاوت کو روکنے کے سلسلے میں حسین حقانی نے واشنگٹن کی مدد حاصل کرنے کے لیے ایک پراسرار میمو بھیجا تھا۔
اس اسکینڈل کے بعد حسین حقانی نے بطور پاکستانی سفیر اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور اس کی تحقیقات کے لیے ایک جوڈیشل کمیشن تشکیل دیا گیا تھا۔
جوڈیشل کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو ایک حقیقت تھا اور اسے حسین حقانی نے ہی تحریر کیا تھا۔
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ میمو لکھنے کا مقصد پاکستان کی سویلین حکومت کو امریکا کا دوست ظاہر کرنا تھا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ ایٹمی پھیلاؤ روکنے کا کام صرف سویلین حکومت ہی کر سکتی ہے۔
مزید پڑھیں: ’حسین حقانی کو ویزوں کے اجرا کا اختیار نہیں تھا‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا تھا کہ حسین حقانی نے میمو کے ذریعے امریکا کو نئی سیکیورٹی ٹیم کے قیام کا یقین دلایا اور وہ خود اس سیکیورٹی ٹیم کا سربراہ بننا چاہتے تھے۔
کمیشن کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ 'حسین حقانی یہ بھول گئے تھے کہ وہ پاکستانی سفیر ہیں، انہوں نے آئین کی خلاف ورزی کی'۔
حسین حقانی اور مضمون
واضح رہے کہ حسین حقانی نے اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کالم تحریر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن میں انہوں نے اوباما انتظامیہ کی مدد کی جبکہ حکومت پاکستان اور خفیہ ایجنسی (آئی ایس آئی) تمام حالات سے بے خبر تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلز پارٹی کا حسین حقانی سے لاتعلقی کا اعلان
انہوں نے اپنے مضمون میں امریکیوں کو جاری کیے جانے والے ویزوں کے حوالے سے بھی بات کی تھی۔
حسین حقانی نے لکھا تھا کہ 'اوباما کی صدارتی مہم کے دوران بننے والے دوستوں نے، 3 سال بعد ان سے پاکستان میں امریکی اسپیشل آپریشنز اور انٹیلی جنس اہلکاروں کو تعینات کرنے کے حوالے سے مدد مانگی تھی'۔