پاکستان

نیب حراستی مراکز تک رسائی کی اجازت نہیں دے رہا، کمیشن برائے انسانی حقوق

کمیشن کے پاس حراستی مراکز کا دورہ کرنے کا اختیار ہے، نیب نے خط کا جواب دینے کی بھی زحمت نہیں کی، چیئرمین این ایچ سی آر

اسلام آباد: قومی کمیشن برائے انسانی حقوق (این سی ایچ آر) کا کہنا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) انہیں اپنے حراستی مراکز تک رسائی کی اجازت نہیں دے رہا جو قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے۔

چیئرمین این ایچ سی آر جسٹس (ر) علی چوہان نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ نیب کی حراست میں قید پروفیسر کی موت اور لاک اپس میں سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب کے الزامات سامنے آنے کے بعد نیب کو ایک خط ارسال کیا گیا تھا جس میں کمیشن کی ٹیم کو حراستی مراکز کا معائنہ کروانے کی اجازت طلب کی گئی تھی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ان کا کہنا تھا کہ قومی کمیشن برائے انسانی حقوق کا قیام 2012 میں ایک ایکٹ کے تحت عمل میں آیا، جس میں اسے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لیے کام کرنے اور خلاف ورزی پر اس کے خلاف از خود نوٹس لینے کا اختیار دیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: انسانی حقوق کمیشن کا نیب کے حراستی مرکز کے معائنے کا مطالبہ

چیئرمین این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ کمیشن کے پاس ملک بھر کے حراستی مراکز کا دورہ کرنے کا اختیار موجود ہے اس کے باوجود نیب نے ان کے خط کا جواب دینے کی بھی زحمت نہیں کی۔

ان کا کہنا تھا کہ’ ہم پروفیسر کامران کی جانب سے لگائے گئے الزامات کی تفتیش کرنا چاہتے ہیں، ہم ایک مہذب قوم ہیں اور ہمارا ایک آئین ہے'۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان ایک قانون دان (قائداعظم) نے بنایا اور یہاں قوانین کی عملداری کو یقینی بنانا ضروری ہے لیکن موجودہ صورتحال قانون کے عملداری کے برعکس ہے، ہمیں اس کے خلاف آواز اٹھانے کے لیے سول سوسائٹی کی حمایت کی ضرورت ہے۔

جسٹس (ر) علی چوہان کا مزید کہنا تھا کہ ’بدقسمتی سے پاکستان میں تشدد کے حوالے سے علیحدہ قوانین موجود نہیں، ’میں نے گزشتہ حکومت کے دور میں اقوامِ متحدہ کو تشدد کے حوالے سے ایک رپورٹ ارسال کی تھی اور اس پر بات بھی کرنی تھی لیکن حکومت نے مجھے باہر جانے سے روک دیا‘۔

مزید پڑھیں: سینیٹ کمیٹی نے چاروں صوبوں سے حراستی مراکز کی تفصیلات طلب کرلیں

چیرمین این ایچ سی آر کا کہنا تھا کہ ’لاپتہ افراد کا معاملہ بھی ایک قسم کا تشدد ہے، قائد اعظم نے پوری زندگی انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کی اور پاکستان انسانی حقوق کے نفاذ کے لیے بنایا گیا لیکن یہاں اقلیتوں کو مسائل کا سامنا ہے‘۔

انہوں نے یہ بات سول سوسائٹی کی تنظیم، جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) اور این ایچ سی آر کے تعاون سے مرتب کردہ رپورٹ کے اجرا کے موقع پر کہی۔

مذکورہ رپورٹ کا عنوان ’فیصل آباد میں پولیس تشدد‘ تھا جس میں بتایا گیا کہ عدالت نے متعلقہ حکام کو فیصل آباد میں پنجاب پولیس کے تشدد سے متاثرہ افراد کا میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ بنانے کرنے کا حکم دیا گیا تھا‘۔

یہ بھی پڑھیں: ڈی جی نیب کو کہا ہے وہ لوگوں کے ساتھ احترام سے پیش آئیں، چیف جسٹس

جس پر عدالتی احکامات کے تحت 2006 سے 2012 کے درمیان ایک ہزار 424 میڈیکو لیگل دستاویز بنائی گئیں لیکن کسی ایک پولیس اہلکار کے خلاف ایکشن نہیں لیا گیا‘۔

نیب کا جواب

اس ضمن میں شناخت پوشیدہ رکھنے کی درخواست پر ایک نیب عہدیدار کا کہنا تھا کہ پروفیسر کامران کی جانب سے لگائے گئے الزامات کے بعد نہ صرف ان کے اہلِ خانہ، پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ ہر مشتمل ایک وفد بلکہ میڈیا کو بھی حراستی مرکز کا دورہ کروایا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’تمام الزامات بے بنیاد ہیں آج تک کسی نے واشرومز میں سی سی ٹی وی کیمرہ ہونے کی شکایت درج نہیں کروائی، ہمیں قانون کا احترام ہے جس کی ہم نے کبھی خلاف ورزی نہیں کی۔