تحریک انصاف کے ’سافٹ لائنر‘ شہباز شریف کی حمایت کیوں کررہے ہیں؟
25 جنوری کو اسپیکر قومی اسمبلی نے جب اجلاس کو غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنے کا اعلان کیا تو نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن کے وہ ارکان بھی حیران ہوتے دکھائی دیے جو تیسری یا چوتھی بار ایوانِ زیریں میں منتخب ہوکر آئے تھے۔ یہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار ہوا تھا کہ فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش ہونے کے بعد نہ تو اس پر بحث ہوئی اور نہ ہی منظوری کا عمل ہوا، بلکہ اجلاس بغیر بحث کے غیر معینہ مدت تک ملتوی کردیا گیا، حالانکہ قوائد کے مطابق فنانس بل پر 15 دن بحث لازمی ہے۔
نئی منتخب ہونے والی قومی اسمبلی کو اب 6 ماہ مکمل ہونے کو ہیں، لیکن اس عرصے کے دوران قومی اسمبلی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو ہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملتا، کیونکہ قومی اسمبلی ابھی تک چور، ڈاکو اور سلکیٹڈ وزیرِاعظم جیسے الزامات کی زد میں ہے۔ اس ایوان کی جو اصل ذمہ داری تھی بدقسمتی سے اس طرف اس نے ابھی تک سوچا تک نہیں ہے۔
قومی اسمبلی کے قوائد کے مطابق وزیرِاعظم کے انتخاب کے 30 روز کے اندر اندر قائمہ کمیٹیوں کا قیام لازمی ہے۔ قائمہ کمیٹیاں حقیقتاً حکومتی نظام پر نگرانی کا ایک مؤثر ذریعہ ہوتی ہیں، جہاں ایک طرف یہ کمیٹیاں متعلقہ وزارتوں کے حکام سے جواب طلبی کرتی ہیں تو دوسری طرف قومی اسمبلی میں ہونے والی قانون سازی میں بھی کردار ادا کرتی ہیں۔ قومی اسمبلی میں پیش ہونے والے بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں میں جاتے ہیں اور کمیٹی کی سفارشات کے بعد وہ بل دوبارہ منظوری کے لیے ایوان میں پیش ہوتے ہیں اور منظوری کے بعد قانون کی شکل اختیار کرتے ہیں۔
دوسرا فائدہ کمیٹیوں کے ارکان کا ہوتا ہے۔ قائمہ کمیٹیوں کے قیام کے بعد ارکان کی روزی روٹی کا سلسلہ بھی شروع ہوجاتا ہے۔ جس طرح قومی اسمبلی کے اجلاس کے آغاز سے 2 دن پہلے اور اجلاس کے اختتام کے 2 دن بعد تک ارکان کو اس تمام عرصے کا الاؤنس ملتا ہے، بالکل اسی طرح قائمہ کمیٹی کے اجلاس کی تاریخ سے بھی 2 دن پہلے اور اجلاس کے 2 دن بعد تک کا الاؤنس دیا جاتا ہے، جبکہ سفری اخراجات اس کے علاوہ ہوتے ہیں۔
اس پوری صورتحال پر ایک رکن نے بیزارگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیرِاعظم کے انتخاب کا ایک مہینہ چھوڑ بھی دیا جائے تو باقی 5 ماہ میں اگر یہ قائمہ کمیٹیاں وجود رکھتیں تو 5 ماہ کے اچھے خاصے پیسے بن جاتے، لیکن حکومت اور اپوزیشن کے درمیان چلنے والے ٹاکرے نے سارا مزا کرکرا کردیا ہے!‘
گزشتہ 6 ماہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ قائمہ کمیٹیاں اپنے وقت پر اس لیے نہیں بن سکیں کیونکہ اپوزیشن لیڈر کو چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) بنانا سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ وزیرِاعظم عمران خان اور ان کی کابینہ کے ہارڈ لائنر پہلے ہی اعلان کرچکے تھے کہ شہباز شریف کو چیئرمین پی اے سی بنانا بِلّے کو دودھ کی رکھوالی دینے کے مترادف ہے۔
جبکہ دوسری طرف شہباز شریف کو ہر صورت چیئرمین پی اے سی بنانا اپوزیشن کی شرط تھی۔ اپوزیشن نے حکومت کے سامنے اپنا موقف واضح رکھا کہ اگر روایت کے تحت قائد حزبِ اختلاف چیئرمین پی اے سی نہیں بنیں گے تو اپوزیشن کسی بھی قائمہ کمیٹی کا حصہ نہیں بنے گی۔ اس ساری صورتحال نے حکومت کے سافٹ لائنر وزرا جن میں شاہ محمود قریشی، پرویز خٹک اور خود اسپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کوششیں کرکے وزیرِاعظم عمران خان کو سمجھایا کہ جب تک شہباز شریف چیئرمین پی اے سی نامزد نہیں ہوتے تب تک ایوانِ زیریں کا مکمل سیٹ اپ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔
پارلیمان کی راہداریوں میں چلتے پھرتے گواہ بتاتے ہیں کہ حکومت کی ضد کی وجہ سے ایک موقعے پر شہباز شریف اپنے نام سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہوچکے تھے اور انہوں نے اپنی مرضی کے بارے میں اسپیکر کو آگاہ بھی کردیا تھا۔ شہباز شریف نے اسپیکر کو پیغام بھیجا کہ اگر ان کی جگہ خواجہ آصف یا ایاز صادق کو چیئرمین پی اے سی نامزد کردیا جائے، تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اس آفر پر اپوزیشن کی دیگر جماعتیں اور خود اسپیکر نے بھی اعتراض کیا تھا۔
عبدالرزاق کھٹی اسلام آباد کے سینئر صحافی ہیں، سیاسی و پارلیمانی معاملات کو قریب سے دیکھتے ہیں، سماجی مسائل ان کا پسندیدہ موضوع ہے۔ ٹوئٹر پر ان سے رابطہ کیا جاسکتا ہے razakkhatti@