نقطہ نظر

پاکستان کے ’حلال‘ دن

ہم پاکستانی دیگر کی ثقافتوں کو اپنانے اور اسے حلال کا رییپنگ پیپر لپیٹنے میں ماہر ہیں۔

لیجیے جناب ویلنٹائنز ڈے پر ایک بار پھر ’ظالم سماج‘ کی تلوار لٹک رہی ہے۔ جب ہم نے سمجھا کہ اس دن کے بارے میں ہم سب کچھ سن اور دیکھ چکے ہیں اتنے میں اچانک فیصل آباد کی یونیورسٹی سے اعلان ہوتا ہے کہ وہ اس دن کو وی-ڈے کے بجائے سسٹرز ڈے (بہنوں کا دن) پکاریں گے۔

اگر کوئی دن ان کے نظریات سے مطابقت نہیں رکھتا تو اسے نظرانداز کرنا کوئی مذاق ہے بھلا۔

نہیں جناب، ہم پاکستانی اپنی زندگیوں میں ڈراما پسند کرتے ہیں اور اگر کوئی ڈراما نہ ہو تو خود تخلیق کردیتے ہیں۔

کبھی کبھار ہم ماہِ رمضان یا رامادان میں سے درست ہجے (یا پھر رمضان کریم پکارا جائے یا صرف رمضان کہا جائے؟ اس) پر ایک دوسرے سے جنگ کر رہے ہوتے ہیں۔ عید کے موقعے پر ہمیں یہی سوچ ستائے جاتی ہے کہ دیگر لوگوں کو مبارک کس طرح دیں، آیا عید گریٹنگز کہیں، عید مبارک یا پھر عید مبروک کہیں؟ مگر تنازعات کا بادشاہ ویلنٹائنز ڈے ان سب پر بھاری ہے۔

ویسے میں خود ویلنٹائنز ڈے کی کوئی زیادہ مداح نہیں ہوں، میرے لیے تو یہ سال کا وہ دن ہے جس میں محبت آپ کا مخلتف طریقوں سے امتحان لیتی ہے۔۔۔ اس بات کو تسلیم کیجیے کہ لمبی لمبی ٹہنیوں والے گلاب، جن کی زندگی کسی سیاستدان کے وعدے کی طرح بہت ہی مختصر ہوتی ہے، ان پر ہفتوں پر کام کر کرکے کمائی گئی آمدن میں سے پیسے خرچ کرنے کے لیے ہمت، جرات اور اندھی محبت چاہیے ہوتی ہے، اور اس دن ایک سے دوسری جگہ روانہ ہونے والے ان پیار محبت بھرے پیغامات کے بارے میں تو کم کہا جائے تو ہی اچھا جن میں اس قدر ‘چیز‘ کا استعمال ہوتا ہے کہ جو درجن بھر پیزا کی ٹاپنگ کے لیے کافی ہوتا ہے۔

ایمانداری کے ساتھ کہوں تو، اگر آپ کے کسی کے ساتھ تعلقات استوار نہیں ہیں تو تلعقات سے آزاد لوگوں کی نسبت ویلنٹائنز ڈے کو آپ بڑی حد تک معاشی اعتبار سے ہی دیکھتے ہیں۔

چلیے یو ٹرن لیتے ہیں، (بھئی میں بھی یہ لفظ استعمال کرسکتی ہوں) ہاں تو جناب 14 فروری کو سسٹرز ڈے منائے جانے پر ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تنقید کی جا رہی ہے۔ سال کے ایک دن ایک دوسرے کو ’سچی‘ محبت کا اظہار کرتے محبت میں گرفتار جوڑے دیکھ کر جتنا میرا جی متلانے لگتا ہے، اسی طرح ہر خاتون کی طرف ’بھائی کی نگاہ‘ سے دیکھنے کی سوچ پر مجھے اتنی ہی ہنسی آتی ہے۔ تو کیا اس کا بنیادی مطلب یہ ہوا کہ، بہنیں ایک دن اور باقی تمام رشتے پورے سال؟ اور اس دن کا نام برادرز ڈے (بھائیوں کا دن) کیوں نہیں رکھا گیا؟

مزید مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ یونیورسٹی کی جانب سے خواتین کے درمیان ابایا اور اسکارف تقسیم کیے جائیں گے تاکہ ‘شریف‘، بھولے آدمیوں کو گناہ فطری سے محفوظ رکھا جاسکے۔ کوئی یونیورسٹی کے لوگوں کو بتائے کہ لڑکیاں ویلنٹائنز ڈے پر جتنا زیادہ ابایا اور پورا نقاب پہنتی ہیں اتنا سال کسی دوسرے دن نہیں پہنتیں۔ اس کے ساتھ ہمارے معاشرے کی مخصوص ذہنیت بھی قابل غور ہے جس کے مطابق مرد کا شدید جذبات سے بھرے دماغ میں آنے والی گناہ کی طرف لے جاتی سوچ کا حل یہ ہے کہ خواتین کو سر سے پیر تک پورا ڈھانپ دیا جائے۔ کیونکہ مرد کو اپنے جذبات پر قابو رکھنے اور نظریں نیچی کرنے کی تلقین کا کوئی آپشن ہی موجود نہیں۔ نہیں جناب نہیں، گناہ کی نیتوں کی ساری ذمہ داری لینے کے لیے جب ’بہنیں‘ موجود ہیں تو یہ مشکل بھلا کیوں اٹھائی جائے؟

اب اگر میں اس پورے معاملے کو نگاہ سے دیکھتی (جو کہ اکثر اوقات ہوتا ہے) تو شاید میں اس نئی پیش رفت کو فیصل آباد میں موجود ابایوں اور اسکارف کے دکانداروں کی ایک سازش کے طور پر تصور کرتی۔ آپ اس دن کے بارے میں سوچیں گے تو آپ کو اس مشق سے صرف دکاندار ہی فائدہ اٹھاتے نظر نہیں آئیں گے۔ تصور کریں، اگر یہ ٹرینڈ مقبول ہوجائے، پھر تو ہم دکانوں پر اسپیشل سسٹرز ڈے کلیکشن والے ابائے اور اسکارف بھی دیکھ سکیں گے ٹھیک اسی طرح جس طرح سال کے اس دن دکانیں دل کی شکل کے غباروں سے بھری نظر آتی ہیں۔

کم از کم ابایا کے دکانداروں کے پاس تو ویلنٹائنز ڈے۔۔ اوہ! میرا مطلب ہے سسٹرز ڈے منانے کی ’جائز‘ وجہ موجود ہے، چاہے دوسرا کوئی یہ دن منائے یا نہ منائے۔ ان کے لیے تو یہ جولائی میں کرسمس جیسا ہوگا۔

آئیے دوبارہ بات کرتے ہیں اس یونیورسٹی کی جو نوجوانوں کے درمیان بھائی بہن کے رشتوں میں مضبوطی پیدا کرنے پر بضد ہے، ممکنہ طور پر ان میں سے چند نوجوان لڑکے اور لڑکیاں آگے چل کر ایک ہی نکاح نامے پر اپنے دستخط ثبت کرتے نظر آسکتے ہیں، یونیورسٹی کے اعلان نے اتنی توجہ حاصل کی جس کا یہ مستحق بھی نہیں تھا۔ ٹوئٹر صارفین کے لیے تو جیسے وہ معرکے کا دن تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم پاکستانی دیگر کی ثقافتوں کو اپنانے اور اسے حلال کا رییپنگ پیپر لپیٹنے میں ماہر ہیں۔ تو صاحبان۔۔۔۔ حلال سرٹیفیکٹ کے ساتھ، مقامی طور پر ردو بدل کے ساتھ ہمارا اپنا نیا ایک خاص دن جنم لے چکا ہے۔

آئیے ان لوگوں کے لیے ایک لمحے کی خاموشی اختیار کرتے ہیں جو بضد ہیں کہ ایک خاص فرائیڈے (جمع) کو ’بلیسڈ‘ (بابرکت) پکارا جائے، کیونکہ اس کے ساتھ بلیک (کالا) قطعی طور پر نہیں لگایا جاسکتا۔

یہ بات آپ کے وہ دوستوں کے لیے ایک نئی اور باعث مسرت اطلاع ثابت ہوئی ہوگی جو اس سوچ کے ساتھ بڑے ہوئے ہیں کہ جمع کا دن مسلمانوں کے لیے ہفتے کے دیگر دنوں سے زیادہ بابرکت ہوتا ہے۔ مگر بھئی پتہ چلا کہ اپنی اپنی ریٹیل قیمت کے حساب سے چند ایسے جمعے بھی ہیں جو دیگر جمعوں کے مقابلے زیادہ بابرکت ہوتے ہیں۔

اب مسلمان چین کی نیند سو سکتے ہیں، اس معلومات پر خوشی سے نہال ہوسکتے ہیں کہ انہوں نے دن کی حرمت کی حفاظت کرلی ہے، کیونکہ اب یہ دوڑے دوڑے رش زدہ اور حد سے زیادہ لوگوں سے بھرے شاپنگ مراکز پہنچتے ہیں اور وہاں ایک دوسرے کو دھکے دے دے کر اپنی جگہ بناتے جاتے ہیں اور اپنی پہلے سے بھری تھیلیوں کو دن کے انعام و اکرام سے مزید بھرتے جاتے ہیں۔ اب جی یہ تو ثانوی حیثیت کی پریشانی ہے۔ اصل مسئلہ تو حل ہوگیا نا۔ بس پھر کام ہوگیا۔ جنت اب ہماری ہوگئی۔

دیگر زیادہ تر اصلی چیزوں کی طرح شاپنگ کے اس بڑے دن کو مغرب سے لیا گیا اور اسے پوری طرح سے معصوم اور شریف دکھانے کے لیے اسے نیا لبادہ اوڑھا دیا۔ ارے ہاں، اس دن کو وائیٹ (سفید) رنگ کے ساتھ رنگنے کا تو میں نے ذکر ہی نہیں کیا۔

جی ہاں جناب میں مذاق نہیں کر رہی۔ چند لوگوں نے تو اسے مغربی بغض والے غلیظ سیاہ رنگ سے چمکدار وائیٹ فرائڈے میں بدلنے کے لیے اس دن کو ہی دھو ڈالا، یہاں ٹھیک ویسی ہی ناپسندیدگی دیکھنے کو ملی جو ہمارے ہاں ان چند خاص رنگوں کے لیے پائی جاتی ہیں، جو نہ فیئر ہوتے ہیں اور نہ لوَلی۔ ہم سب جانتے ہیں کہ سانولی لڑکیوں کی اس زمین پر گورا ہونے کو ہی خوبصورتی سمجھا جاتا ہے، لیکن ایک معصوم رنگ سے اس قدر نفرت اور دن کے نام کو بلیک سے بدل کر وائیٹ رکھنا، کچھ زیادہ ہی ہوگیا۔

بلیک فرائڈے، وائٹ فرائڈے یا بلیسڈ فرائڈے کی اس بحث سے تنگ آ کر میں نے اپنی ایک شاپنگ کی شوقین دوست سے پوچھا کہ وہ اس منظرنامے کو کس طرح دیکھتی ہے۔ اس کے جواب نے بڑی حد تک تمام باتوں کو واضح کردیا۔ اس نے کہا کہ ’دیکھو میری دوست، رنگ جو بھی ہو، مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، بس سیل میں کمی نہیں ہونی چاہیے اور جب ایسا موقع ہو تو اس سے بڑھ کر ہمارے لیے اور کون سا بلیسڈ یا بابربکت دن ہوسکتا ہے۔‘

ارے یہ کہہ دیا۔

مذکورہ بات کے ساتھ میں اپنی تحریر کا اختتام بھی کرتی ہوں۔

یہ مضمون 10 فروری 2019 کو ڈان اخبار کے میگزین ای او ایس میں شائع ہوا۔

سعدیہ ریضا
ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔