سانحہ ساہیوال: ’والدین کو قتل کرنے سے قبل اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی‘
ساہیوال کے قریب محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے اہلکاروں کے ہاتھوں اپنے والدین اور بڑی بہن کے قتل کے چشم دید گواہ 8 سالہ بچے نے انکشاف کیا ہے کہ ان کے خاندان کو قتل کرنے سے قبل اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی تھی۔
مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے جمع کرائے گئے تحریری بیان میں عمیر خلیل نے کہا کہ مسلح اہلکاروں نے پہلے ذیشان کو گولی مار کر قتل کیا اور پھر ان کے والد، ماں اور بہن پر فائرنگ کرنے سے قبل کسی سے فون پر بات کی۔
مزید پڑھیں: ساہیوال: سی ٹی ڈی کی کارروائی، کار سوار خواتین سمیت 4 'مبینہ دہشت گرد' ہلاک
عینی شاہد نے پولیس کے بیان کو یکسر مسترد کردیا جس کے مطابق کسی نے گاڑی کے اندر یا پھر موٹر سائیکل سے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں پر فائرنگ کی تھی۔
انہوں نے اصرار کیا کہ پولیس نے یہ بھی جھوٹ گھڑا ہے کہ گاڑی سے کوئی دہشت گردی کا سامان برآمد ہوا تھا۔
بچے نے بتایا کہ وہ اپنی والدہ نبیلہ، والد خلیل احمد، بڑی بین عریبہ اور چھوٹی بہنوں منیبہ اور ہادیہ کے ہمراہ 19 جنوری کو لاہور سے نکلے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال:’جے آئی ٹی رپورٹ میں نئے اور پرانے پاکستان کا فرق دکھائی دے گا‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا پڑوسی ذیشان گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا اور جب ہم ساہیوال کے علاقے قادر آباد پہنچے تو مسلح افراد نے ہماری گاڑی پر پیچھے سے فائرنگ کردی‘۔
8 سالہ بچے کا کہنا تھا کہ شدید فائرنگ کے نتیجے میں گاڑی فٹ پاتھ سے جا ٹکرائی، کچھ نقاب پوش پولیس اہلکار 2 گاڑیوں میں وہاں پہنچے، پولیس اہلکاروں نے ذیشان پر فائرنگ کی جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گئے، اس کے بعد پولیس اہلکار نے کسی سے فون پر بات کی اور میرے والد نے انہیں رقم کی پیشکش کرتے ہوئے نہ مارنے کی درخواست کی۔
عمیر نے شوٹنگ اسکواڈ کے سامنے ان کے والد کی جانب سے کی گئی درخواست کو دہراتے ہوئے بتایا کہ ان سے درخواست کی گئی کہ ’آپ رقم لے لیں اور ہمیں نہ ماریں‘، البتہ انہوں نے اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے فون پر گفتگو ختم ہونے کے بعد اپنے ساتھیوں کو گاڑی پر فائرنگ کا حکم دیا۔
انہوں نے بیان دیا کہ فائرنگ کے نتیجے میں ان کے والد، ماں اور بڑی بہن فوری طور پر دم توڑ گئے تھے جبکہ ایک گولی ان کی ٹانگ اور ایک ان کی بہن کے ہاتھ میں لگی۔
مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال: ‘مقتولین کے ورثا کی جان کو خطرہ ہے‘
عینی شاہد نے انکشاف کیا کہ وہ اور ان کی بہنیں اس لیے بچ گئیں کیونکہ موت سے قبل ان کی ماں نے انہیں اور ان کی بہن ہادیہ کو محفوظ رکھنے کے لیے سیٹ کے نیچے دھکیل دیا جبکہ ان کے والد نے منیبہ کو بچانے کے لیے خود گولیاں کھائیں۔
انہوں نے بتایا کہ فائرنگ رکنے کے بعد محکمہ انسداد دہشت گردی کے اہلکاروں نے انہیں اور ان کی 2 بہنوں کو اپنی گاڑی میں ڈالا اور پھر گاڑی پر دوبارہ فائرنگ کی، اس کے بعد وہ انہیں گاڑی میں کچھ دور لے کر گئے اور پھر انہیں ایک صحرائی علاقے میں چھوڑ دیا جبکہ وہ اور ان کی بہن گولی لگنے کے سبب درد کی شدت سے تڑپ رہے تھے۔
عمیر کا کہنا تھا کہ کچھ دیر بعد قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے انہیں روتے ہوئے دیکھا تو اس نے انہیں پیٹرول پمپ پر ڈراپ کردیا اور کچھ دیر بعد گاڑی پر فائرنگ کرنے والے سی ٹی ڈی کے اہلکار پیٹرول پمپ پر آئے اور انہیں مقامی ہسپتال میں منتقل کردیا۔
یہ خبر ڈان اخبار میں 10 فروری 2019 کو شائع ہوئی