علیم خان کی گرفتاری: کیا وزارت اعلی کیلئے ان کی راہ ہموار ہوگئی؟


نئے پاکستان کی جھلک اس وقت دیکھنے کو ملی جب نیب نے پنجاب کے سینئر صوبائی وزیر علیم خان کو گرفتار کیا۔ یہ اقدام خلافِ توقع تو نہیں تھا البتہ ایک ایسے ملک کے لیے تھوڑا نیا ضرور تھا جہاں حکومت برملا طور پر جمہوریت بمع کرپشن پر صفر برداشت پر عوامی اعتماد کی بحالی کے غرض سے کچھ نئے مناظر پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
یہ ممکن ہے کہ علیم خان کی گرفتاری طویل عرصے تک پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دعوؤں کو درست ثابت کرتی رہے کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں، مگر تاہم یہ تشریح دیگر ابھرتی تھیوریز سے محفوظ رکھنے میں مددگار ثابت نہیں ہونے والی۔
علیم خان کو نیب کے لاک اپ میں ڈالا جانا سوچ لیا گیا تھا۔ اب اسے ایک ایسی رکاوٹ کے طور پر لیا جارہا ہے جسے وسائل سے بھرپور پراپرٹی ٹائیکون کو اقتدار کے اہم عہدوں پر دعوٰی کرنے سے پہلے ابھی عبور کرنا باقی ہے۔ یہ بھی کہا گیا کہ وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کے لیے عمران خان کی پہلی چوائس میں شامل ہیں۔ ان کے خیر خواہ اب امید لگائے بیٹھے ہوں گے کہ وہ کلیئر ہونے کے قریب ہیں تاکہ وہ جلد ہی مستقبل کی چند طاقتور قلمدان سنبھال سکیں۔
چند اس کے برخلاف منظرنامے بھی ہیں، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ جس متبادل وزیرِاعلیٰ کو عمران خان نے محض مجبوری کے لیے یہ عہدہ دیا تھا انہوں نے اپنی خود کی شناخت بنالی ہے۔
اگرچہ عثمان بزدار اس خواب کو پوری طرح سے پورا کرنے میں بڑی حد تک ناکام رہے ہیں جس میں عمران نے انہیں جوش و جذبے کے ساتھ کام کرتے دیکھا تھا۔ تاہم یہ کہا جاسکتا ہے کہ جنوب سے تعلق رکھنے والے سردار نے کپتان کے ہاتھوں ہونے والی اپنی سرپرائز سلیکشن کے نتیجے میں پارٹی کے اندر اتنی حمایت تو ضرور حاصل کرلی ہے کہ ان کی جگہ کسی دوسرے کو لانا آسان نہیں ہوگا۔
عمران خان اپنے دائیں بائیں بیٹھے قریبی ساتھیوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ اپنے برطانوی دوست ذوالفقار بخاری کو کابینہ میں شامل کرنے کے لیے جس انداز میں انہوں نے جدوجہد کی اس سے پتہ چلتا ہے کہ کارہائے حکومت چلانے میں وہ اپنے ساتھی کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات پر کس قدر انحصار کرتے ہیں۔
عمران خان کی یہ خاصیت ان لوگوں کی کافی حوصلہ افزائی کا باعث بنے گی جو علیم خان کو نیب سے کلیئر چٹ ملنے کے بعد وزارتِ اعلیٰ کے عہدے کی پہلی چوائس کے لیے موزون بتاتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ علیم خان کے بارے میں ہونے والی باتوں کو معمولی قرار دیے جانے کو فوراً رد کیا جاتا ہے: یہ اچھے اچھے لوگوں کو جمع کرنے اور پھر ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے حوالے سے وزیرِاعظم کے تاثر کے متضاد ہے۔ اس صورتحال میں ہمارے ہیرو ایسا میرٹ اور استعداد کی بنیاد پر کرتے ہیں۔ واحد مسئلہ یہ ہے کہ اگر دونوں دوست دل کے قریب ہوں تو وہ ان میں سے کس طرح کسی ایک کا انتخاب کریں گے۔
علیم خان اب عمران خان کے لیے پرانے لیفٹینیٹ کی حیثیت رکھتے ہیں، جو (ق) لیگ کے بعد پی ٹی آئی میں شامل ہوئے تھے۔ وہ پی ٹی آئی کے ساتھ چند شدید مشکل جنگوں میں کھڑے رہے ہیں اور انہیں اکثر ایک ایسے مالی استطاعت والے شخص کے طور پر دیکھا گیا ہے جو لمبی جنگوں میں بہت ضروری ہوتا ہے۔