’افغانستان میں امن کیلئے طالبان سمیت دیگر گروہوں سے بھی مذاکرات کررہے ہیں‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دوسرے اسٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اپنی قوم کو آگاہ کیا کہ ان کی حکومت افغانستان میں طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر گروپس کے ساتھ بھی مذاکرات کررہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ جب ہم ان مذاکرات میں پیش رفت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو اپنے فوجیوں کی تعداد کم کرنے کے قابل ہوں گے اور انسداِ دہشت گردی پر توجہ دیں گے۔
واضح رہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ جب امریکی صدر نے بتایا ہے کہ وہ افغان طالبان کے ساتھ ساتھ دیگر گروپس کے ساتھ بھی مذاکرات کررہے ہیں تاہم انہوں نے ان گروہوں کے نام نہیں بتائے۔
یہ بھی پڑھیں: شام اور افغانستان سے فوجی انخلا کا منصوبہ امریکی سینیٹ میں مسترد
امریکی صدر کا مزید کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ ہم ان مذاکرات میں کوئی سمجھوتہ کر پاتے ہیں یا نہیں لیکن ہمیں یہ معلوم ہے کہ 2 دہائیوں کے بعد اب وہ وقت آگیا ہے جب امن کے لیے کم از کم کوشش کرلی جائے‘۔
اپنے خطاب میں امریکی صدر نے ملکی سیاست میں تلخیوں سے آگاہی کے باوجود زیادہ تر توجہ خارجہ پالیسی کے ایجنڈے پر مرکوز رکھی اور افغانستان اور شام سے فوجی انخلا کا عزم دہرایا، ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے دستبرداری، روس کے ساتھ میزائل معاہدے کے خاتمے اور شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کے ساتھ مذاکرات کرنے کی تعریف کی۔