مانجھند دربار: مذہبی رواداری کی ایک اور مثال
مانجھند دربار: مذہبی رواداری کی ایک اور مثال
زندگی کے بعض سفر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں نہ تو پاؤں تھکتے ہیں، نہ دل بیزار ہوتا ہے اور نہ ہی آنکھوں کو منزل دیکھنے کی جلدی ہوتی ہے۔ بلکہ دھیرے دھیرے سے منزل کی جانب بڑھتے ہوئے قدم اس راستے پر ہی چلتے رہنا چاہتے ہیں جس میں منزل سے زیادہ اہمیت اس سفر کی ہوتی ہے جو آپ کو کبھی بھی اکیلا پن محسوس نہیں ہونے دیتا۔ ایسے سفر زندگی کی کتاب کے وہ باب بن جاتے ہیں جنہیں بار بار پڑھنے کو دل کرتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ہر سفر کا اپنا لطف ہے اور ہر سفر کی اپنی رنگینیاں ہیں۔ سندھ میں اب بھی بہت کچھ ہے جسے دیکھنے کے لیے مجھے رختِ سفر باندھنا پڑتا ہے۔ اس بار مجھے ایک ایسی جگہ جانا تھا جس کے گرد ویرانی امر بیل کی مانند لپٹی ہوئی ہے۔
کثیر المذاہب دھرتی رہنے کی وجہ سے سندھ میں مذہبی رواداری کی کئی مثالیں ہمیں جا بجا ملتی رہتی ہیں۔ یہاں لگنے والے میلوں سے لیکر دیگر مذہبی تہواروں میں لوگ بنا کسی مذہبی فرق کے شریک ہوتے رہتے ہیں۔
اڈیرو لال، قلندر لال شہباز قلندر، سمن سرکار، بھٹ شاہ اور دیگر ایسے کئی مقامات ہیں، جہاں مذہبی رواداری کے مظہر ہمیں دکھائی دیتے ہیں۔ سندھ میں اسلام کی آمد سے قبل یہاں جین مت، بدھ مت اور ہندو مت کے ماننے والے بڑی تعداد میں موجود تھے۔ تاہم اسلام کی آمد کے بعد ان تمام مذاہب کا غلبہ ختم ہوگیا اور اسلام برصغیر کا ایک اہم ترین مذہب بن گیا۔ لیکن جیسا کہ سندھ کی تہذیب دریائے سندھ کے کنارے پھلتی پھولتی رہی ہے لہٰذا یہ خطہ اپنی تہذیب و تمدن کے حوالے سے کافی امیر اور رنگینیوں کا مالک ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں بسنے والے تمام مذاہب کے لوگ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں۔